Forward from: الشیخ رحیم الله الحقانی
یہاں ڈاکٹر صاحب نے دو باتیں سراسرغلط کہیں ہیں:
(الف)۔۔۔ نمازمیں مرد و عورت کے درمیان فرق کے سلسلے میں کوئی حدیث نہیں۔
(ب) ۔۔۔حضورﷺ نے عورتوں کو مردوں کی طرح بیٹھنے کا حکم دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے پہلی بات کہہ کر ان تمام احادیث کا انکار کردیا ، جن میں مردوں اور عورتوں کی نماز کے درمیان فرق کا بیان موجودہے۔ ذیل میں چندروایتیں ذکر کی جاتی ہیں:
(۱)۔۔۔اخرج البخاری عن النبی علیہ السلام انہ قال: یا ایھا الناس! مالکم حین نابکم شیء فی الصلاۃ، اخذتم فی التصفیق، انما التصفیق للنساء.[۱/۱۷۴، رقم الحدیث:۶۸۴]
(۲)۔۔۔عن وائل بن حجر قال قال لی رسول اللہﷺ: یا وائل بن حجر اذا صلیت فاجعل یدیک حذاء اذنیک والمرأۃ تجعل یدیھا حذاء ثدییھا۔ [المعجم الکبیرللطبرانی]
(۳)۔۔۔عن یزید بن ابی حبیب ان رسول اللہﷺ مر علی امرأتین تصلیان فقال: اذا سجدتما فضما بعض اللحم الی الارض؛ فان المرأۃ لیست فی ذلک کالرجل [اخرجہ ابوداؤد مرسلا والبیھقی موصولا]
(۴)۔۔۔سئل ابن عمر کیف کن النساء یصیلین علی عھد رسول اللہﷺ قال کن یتربعن ثم امرن ان یتحفزن [جامع المسانید والسنن]
ان روایات میں مردوں اور عورتوں کی نما زمیں مختلف طرح کے فرق کا ذکر ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی حدیثیں ہیں، اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ اور جہاں تک دوسری بات یعنی بخاری شریف میں عورتوں کو مردوں کی طرح بیٹھنے سے متعلق حکم نبوی کی بات، تویہ ایک غلط انتساب ہے، حضرت ام الدرداء کی جس روایت کا ڈاکٹر ذاکر صاحب نے حوالہ دیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:’’وکانت ام الدرداء تجلس فی صلاتھا جلسۃ الرجل وکانت فقیھۃ.‘‘ [بخاری شریف:۱/۱۱۴]
اس روایت میں کہیں بھی حضورﷺ کے قول و فعل کا ذکر نہیں ہے؛ بلکہ ایک صحابیہ کا عمل ہے، جس کا ذکر کرکے امام بخاری نے اشارہ بھی کردیا کہ وہ خود فقیہہ تھیں وہ اپنے اجتہاد سے ایسا کرتی تھیں، نیز امام بخاریؒ نے اسے تعلیقاً ذکرکیا ہے، سند ذکر نہیں کی ہے۔
(۴)۔۔۔ائمہ مجتہدین کے اتباع سے فرار اور مسائلِ فقہیہ میں سوادِ اعظم کی راہ سے نمایاں انحراف
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب اپنی تحریرات اور تقریرات کی روشنی میں کسی امام کے متبع معلوم نہیں ہوتے؛ بلکہ اباحیت ، جدت پسندی نیز غیر مقلدیت اور لا مذہبیت کے شکار ہیں، صرف یہی نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کسی متعین امام کی تقلید نہیں کرتے؛بلکہ ائمہ کی تقلید کرنے والے مخلص عوام کو عدم تقلید کی روش اپنانے کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنے بیان کردہ مسائل میں کہیں کسی امام کا قول و استنباط کردہ حکم کو اپنی طرف منسوب کرکے نقل کرتے ہیں، اور کہیں خود مجتہدانہ انداز پر مسئلے بیان کرنے لگتے ہیں، جب کہ ان کو مسائل نقل کرنے میں اس متعین امام کا نام لینا چاہیے، جنہوں نے اس مسئلے کا استنباط کیا ہے؛تاکہ سننے والے کو یہ مغالطہ نہ ہو کہ قرآن وسنت سے صرف یہی ثابت ہے، اس کے علاوہ جو دوسری باتیں لوگوں کے عمل میں ہیں چاہے وہ قرآن و حدیث سے ثابت اور ائمہ مجتہدین کا قول کیوں نہ ہو -غلط ہیں-ذیل کی مثالوں سے مذکورہ باتوں کا بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا، ملاحظہ فرمائیں:
(الف)۔۔۔ بلا وضو قرآن چھونا جائز ہے۔
ڈاکٹر صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’ بلا وضو قرآنِ کریم چھونے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘‘ الخ
حالاں کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ قول آیتِ کریمہ:لایمسہ الاالمطہرون. نیز تمام ائمہ مجتہدین کے خلاف ہے۔
(ب)۔۔۔ خطبۂ جمعہ عربی زبان کے بجائے مقامی زبان میں ہونا چاہیے۔
ایک موقعہ پر خطبۂ جمعہ سے متعلق ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں:
’’میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں جمعہ کا خطبہ مقامی علاقائی اور مادری زبانوں میں دیے جانے کااہتمام کیا جائے تاکہ۔۔۔‘‘
حالاں کہ حضورﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک خطبۂ جمعہ عربی میں دینے پر توارث چلا آرہا ہے، آج ڈاکٹر صاحب یہ دعوت دے رہے ہیں کہ خطبہ مقامی زبان میں ہوناچاہیے؛ تاکہ لوگ سمجھ سکیں، جب کہ یہ مصلحت (غیر عربی جاننے والوں کا سمجھنا) حضورﷺ کے زمانے میں بھی موجود تھی؛ اس لیے کہ حضور علیہ السلام کے خطبے میں عرب کے علاوہ عجم کے لوگ بھی شریک ہوتے؛ لیکن حضورﷺ نے ہمیشہ عربی زبان میں خطبہ دیا، کسی دوسری زبان میں خطبہ نہیں دلوایا، اور نہ ہی بعد میں اس کا ترجمہ کروایا، اسی طرح صحابۂ کرام،تابعین ،تبع تابعین اور ان کے متبعین عرب سے نکل کر عجم میں گئے، مشرق و مغرب میں صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم عجمیوں کی زبان خوب جانتے تھے؛ لیکن پھر بھی خطبہ عربی ہی میں دیا کرتے تھے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ خلفائے راشدین صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تعامل ومواظبت اور ساری امت کا توارث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خطبہ عربی زبان ہی میں ضروری ہے، یہاں تک کہ امام مالک رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کی صحت کے لیے خطہ کا عربی زبان میں ہونا ضروری ہے، اگرچہ پورا مجمع عجمیوں کا ہو، عربی کوئی نہ جانتا ہواور اگر عربی میں خطبہ پڑھنے والا مجمع میں کوئی نہ ہو تو لوگوں پر ظہر کی ادائیگی لازم ہوگی، جمعہ ساقط ہوجائے گا۔’’ولوکان الجماعۃ عجما لا
(الف)۔۔۔ نمازمیں مرد و عورت کے درمیان فرق کے سلسلے میں کوئی حدیث نہیں۔
(ب) ۔۔۔حضورﷺ نے عورتوں کو مردوں کی طرح بیٹھنے کا حکم دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے پہلی بات کہہ کر ان تمام احادیث کا انکار کردیا ، جن میں مردوں اور عورتوں کی نماز کے درمیان فرق کا بیان موجودہے۔ ذیل میں چندروایتیں ذکر کی جاتی ہیں:
(۱)۔۔۔اخرج البخاری عن النبی علیہ السلام انہ قال: یا ایھا الناس! مالکم حین نابکم شیء فی الصلاۃ، اخذتم فی التصفیق، انما التصفیق للنساء.[۱/۱۷۴، رقم الحدیث:۶۸۴]
(۲)۔۔۔عن وائل بن حجر قال قال لی رسول اللہﷺ: یا وائل بن حجر اذا صلیت فاجعل یدیک حذاء اذنیک والمرأۃ تجعل یدیھا حذاء ثدییھا۔ [المعجم الکبیرللطبرانی]
(۳)۔۔۔عن یزید بن ابی حبیب ان رسول اللہﷺ مر علی امرأتین تصلیان فقال: اذا سجدتما فضما بعض اللحم الی الارض؛ فان المرأۃ لیست فی ذلک کالرجل [اخرجہ ابوداؤد مرسلا والبیھقی موصولا]
(۴)۔۔۔سئل ابن عمر کیف کن النساء یصیلین علی عھد رسول اللہﷺ قال کن یتربعن ثم امرن ان یتحفزن [جامع المسانید والسنن]
ان روایات میں مردوں اور عورتوں کی نما زمیں مختلف طرح کے فرق کا ذکر ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی حدیثیں ہیں، اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ اور جہاں تک دوسری بات یعنی بخاری شریف میں عورتوں کو مردوں کی طرح بیٹھنے سے متعلق حکم نبوی کی بات، تویہ ایک غلط انتساب ہے، حضرت ام الدرداء کی جس روایت کا ڈاکٹر ذاکر صاحب نے حوالہ دیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:’’وکانت ام الدرداء تجلس فی صلاتھا جلسۃ الرجل وکانت فقیھۃ.‘‘ [بخاری شریف:۱/۱۱۴]
اس روایت میں کہیں بھی حضورﷺ کے قول و فعل کا ذکر نہیں ہے؛ بلکہ ایک صحابیہ کا عمل ہے، جس کا ذکر کرکے امام بخاری نے اشارہ بھی کردیا کہ وہ خود فقیہہ تھیں وہ اپنے اجتہاد سے ایسا کرتی تھیں، نیز امام بخاریؒ نے اسے تعلیقاً ذکرکیا ہے، سند ذکر نہیں کی ہے۔
(۴)۔۔۔ائمہ مجتہدین کے اتباع سے فرار اور مسائلِ فقہیہ میں سوادِ اعظم کی راہ سے نمایاں انحراف
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب اپنی تحریرات اور تقریرات کی روشنی میں کسی امام کے متبع معلوم نہیں ہوتے؛ بلکہ اباحیت ، جدت پسندی نیز غیر مقلدیت اور لا مذہبیت کے شکار ہیں، صرف یہی نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کسی متعین امام کی تقلید نہیں کرتے؛بلکہ ائمہ کی تقلید کرنے والے مخلص عوام کو عدم تقلید کی روش اپنانے کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنے بیان کردہ مسائل میں کہیں کسی امام کا قول و استنباط کردہ حکم کو اپنی طرف منسوب کرکے نقل کرتے ہیں، اور کہیں خود مجتہدانہ انداز پر مسئلے بیان کرنے لگتے ہیں، جب کہ ان کو مسائل نقل کرنے میں اس متعین امام کا نام لینا چاہیے، جنہوں نے اس مسئلے کا استنباط کیا ہے؛تاکہ سننے والے کو یہ مغالطہ نہ ہو کہ قرآن وسنت سے صرف یہی ثابت ہے، اس کے علاوہ جو دوسری باتیں لوگوں کے عمل میں ہیں چاہے وہ قرآن و حدیث سے ثابت اور ائمہ مجتہدین کا قول کیوں نہ ہو -غلط ہیں-ذیل کی مثالوں سے مذکورہ باتوں کا بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا، ملاحظہ فرمائیں:
(الف)۔۔۔ بلا وضو قرآن چھونا جائز ہے۔
ڈاکٹر صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’ بلا وضو قرآنِ کریم چھونے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘‘ الخ
حالاں کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ قول آیتِ کریمہ:لایمسہ الاالمطہرون. نیز تمام ائمہ مجتہدین کے خلاف ہے۔
(ب)۔۔۔ خطبۂ جمعہ عربی زبان کے بجائے مقامی زبان میں ہونا چاہیے۔
ایک موقعہ پر خطبۂ جمعہ سے متعلق ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں:
’’میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں جمعہ کا خطبہ مقامی علاقائی اور مادری زبانوں میں دیے جانے کااہتمام کیا جائے تاکہ۔۔۔‘‘
حالاں کہ حضورﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک خطبۂ جمعہ عربی میں دینے پر توارث چلا آرہا ہے، آج ڈاکٹر صاحب یہ دعوت دے رہے ہیں کہ خطبہ مقامی زبان میں ہوناچاہیے؛ تاکہ لوگ سمجھ سکیں، جب کہ یہ مصلحت (غیر عربی جاننے والوں کا سمجھنا) حضورﷺ کے زمانے میں بھی موجود تھی؛ اس لیے کہ حضور علیہ السلام کے خطبے میں عرب کے علاوہ عجم کے لوگ بھی شریک ہوتے؛ لیکن حضورﷺ نے ہمیشہ عربی زبان میں خطبہ دیا، کسی دوسری زبان میں خطبہ نہیں دلوایا، اور نہ ہی بعد میں اس کا ترجمہ کروایا، اسی طرح صحابۂ کرام،تابعین ،تبع تابعین اور ان کے متبعین عرب سے نکل کر عجم میں گئے، مشرق و مغرب میں صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم عجمیوں کی زبان خوب جانتے تھے؛ لیکن پھر بھی خطبہ عربی ہی میں دیا کرتے تھے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ خلفائے راشدین صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تعامل ومواظبت اور ساری امت کا توارث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خطبہ عربی زبان ہی میں ضروری ہے، یہاں تک کہ امام مالک رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کی صحت کے لیے خطہ کا عربی زبان میں ہونا ضروری ہے، اگرچہ پورا مجمع عجمیوں کا ہو، عربی کوئی نہ جانتا ہواور اگر عربی میں خطبہ پڑھنے والا مجمع میں کوئی نہ ہو تو لوگوں پر ظہر کی ادائیگی لازم ہوگی، جمعہ ساقط ہوجائے گا۔’’ولوکان الجماعۃ عجما لا