Forward from: اسلامی دنیا
تو انہی اصحاب کا عزم لے کر اس راستے میں مزید ڈٹ گئے ہیں کہ آؤ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم جس کی خاطر قربان ہوئے ہم بھی ہو جائیں۔صحابہؓ کے بیٹو! سلام تم پر!
...........................................
امنیت کی بات کرنے کے بعد استاذ نے کہا کہ ہم آپ کو ظہیر بھائی کے سپرد کر رہے ہیں۔آپ نے ان کی خدمت کرنی ہے۔ان کے کپڑے دھونے ہیں۔ان کے ساتھ رہنا ہے، جو کام وہ کہیں تو وہ کرنا ہے۔
یہ کہہ کر استاذ نے مجھے جانے اور مصعب بھائی کو بھیجنے کا کہا۔اس سے پہلے کہ میں گاڑی سے نکلتا مجھے ایک اہم سوال یاد آیا جو استاذ سے کرنا تھا۔کچھ بھائیوں کی تشکیل ایک مشتبہ جاسوس سے تفتیش پر کی گئی تھی۔ان میں سے ایک بھائی نے مجھ سے یہ سوال استاذ سے پوچھنے کا کہا تھا اور یہ میں نے دریافت کیا۔ایک شخص کو اٹھایا گیا تھا جس پر ڈرون حملوں میں معاونت کے لیے، جاسوسی کا الزام تھا۔پھر اس کو ایک مرکز میں رکھا گیا۔نیز اس کو جسمانی سزا دی گئی۔بعد میں تفتیش و تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ شخص جاسوس نہیں تھا۔ اب یہاں دو سوالات تھے۔اولاً اس شخص کو اٹھایا تو کن بنیادوں پر؟ ثانیاً اس شخص کو جسمانی سزا دینے والے بھائی اب کیا کریں، کیا انہیں بدلہ لینے کے لیے پیش ہونا چاہیے؟
اسی کی ذیل میں یہ نکتہ بھی واضح رہے جیسا کہ ہم نے علماء سے سنا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں بس کسی مسلمان کو جاسوسی کے شبہہ میں نہیں اٹھایا جاتا اور نہ ہی کسی مسلمان کے بارے میں یہ بدگمانی کی جاتی ہے کہ یہ شخص جاسوس ہو گا، کہ مسلمانوں میں سے کفار کے لیے جاسوسی کرنے والا شخص تو غدار ہو گا اور مومن کے بارے میں یہ گمان تو بہت بری بات ہے۔سو اس بات کا جواب آئندہ سطور میں ان شاء اللہ موجود ہے۔
استاذ رحمہ اللہ نے یہ سوال سنا اور میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے پر ایک مخصوص تعجب اور فکر تھی، جو آئندہ کے مہ و سال میں کئی بار دیکھی، لیکن یہ پہلی بار تھا۔استاذ نے کچھ پریشانی ، کچھ جھنجھلاہٹ، کچھ عجیب سی کیفیت کا اظہار اپنے چہرے اور جسم کے تاثرات سےکیا۔پھر اپنی ڈائری نکالی اور کچھ لکھنے لگے۔پھر نہایت متفکر لہجے میں مگر دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ میں پوچھ کر بتاؤں گا۔
ابھی آگے استاذ کی بات جاری ہے لیکن یہاں رک کر کچھ تبصرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ استاذ ایک بہترین عالمِ دین تھے اور اس بات کو میرے جیسے کی گواہی نہیں چاہیے۔استاذ کا عمل، خصوصاً جہادی اعمال اور قتالی کارروائیاں، ان کی تصانیف اور اہلِ علم کی ملاقاتوں کے بعد ان کے بارے میں گواہیاں اور ان کے متعلق تاثرات، علوم و تفقہِ استاذ پر کافی دلیل ہیں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کئی لوگوں نے ان کو کبھی عالم تسلیم نہیں کیا۔وہ اکثر ان کی پِیٹھ پیچھے ان کے عالم نہ ہونے کی طعنہ زنی کرتے رہے۔مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی،مہتمم دار العلوم دیوبند فرماتے ہیں کہ ہمارے علمادو نسبتوں سے ہیں یا تو انہوں نے باقاعدہ کسی مدرسے میں علم و تعلم کا سفر طے کیا ہوتا ہے یا پھر وہ کسی استاذ کے پاس بیٹھ کر علمِ دین حاصل کرتے ہیں۔
ہم یہ بات وقت کے جید حنفی و سلفی علماسے بار ہا سن چکے ہیں کہ استاذ کا علم و تفقہ بتاتا ہے کہ وہ ایک بہترین عالمِ دین تھے۔اسی طرح حنفی و سلفی ہر دو طرف کے علماء اس بات کو جانتے ہیں کہ استاذ نے وقت کے بڑے بڑے مشائخ سے علمِ دین حاصل کیا۔ان مشائخ میں حکیم الامۃ شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ، شیخ مصطفیٰ ابو یزید ؍ شیخ سعیدؒ، شیخ عطیۃ اللہ اللیبیؒ، شیخ ابو یحییٰ اللیبیؒ، شیخ منصور شامیؒ، شیخ ابو دجانہ پاشا ؒ، استاذ کے رفیق و امیر مولانا عاصم عمر حفظہ اللہاور استاذ کے رفیق و حبیب مولانا سعید اللہ ؒوغیرہ شامل ہیں۔یہ وہ چند نام ہیں جنہیں راقم جانتا ہے یقیناً دیگر مشائخ و علماء بھی اس فہرست میں شامل ہوں گے۔
اس کے ساتھ جو مزید بات استاذ کے اس جملے کے ’پوچھ کر بتاؤں گا‘سےمعلوم ہوتی ہے وہ ہے استاذ کی تواضع۔مجھے میرے ایک اور استاد نے بتایا کہ علم کے ساتھ انسان میں تکبر آتا ہے کہ علم کی نسبت اللہ پاک سے ہے اور وہ ذاتِ عالی ہیں۔سو طالبِ علم و علماء میں بھی علو کا مادہ آجاتا ہے۔سو اس علو و تکبر کو تزکیہ و احسان سے تواضع و انکساری میں بدلا جاتا ہے۔ حضرتِ استاذ کے مزاج میں یہ تواضع جا بجا نظر آتی تھی۔ایک مجلس میں ایک ساتھی نے جو بعد میں اپنی غلطی سے تائب ہو گیا ، استاذ سے پہلے ایک مسئلہ دریافت کیا اور جواب پانے پر گستاخی کی کہ یہ مسئلہ کسی عالم سے بھی پوچھ لینا چاہیے۔استاذ کے ماتھے پر ایک بھی شکن نہ پڑی اور انہوں نے خاموشی اور اشارے سے اس بھائی کی اس بات کی تائید کی کہ ہاں کسی عالم سے پوچھ لینا چاہیے۔اللہ پاک ہم سب کو تواضع اور بڑوں کے ادب کی نعمت سے نوازے، آمین۔
؏ ادب پہلا قرینہ ہے، محبت کے قرینوں میں
’پوچھ کر بتاؤں گا‘، حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی عالم سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے اور وہ(جانتا ہو مگر) کہے کہ ’میں دیکھ کر بتاتا ہوں‘،
...........................................
امنیت کی بات کرنے کے بعد استاذ نے کہا کہ ہم آپ کو ظہیر بھائی کے سپرد کر رہے ہیں۔آپ نے ان کی خدمت کرنی ہے۔ان کے کپڑے دھونے ہیں۔ان کے ساتھ رہنا ہے، جو کام وہ کہیں تو وہ کرنا ہے۔
یہ کہہ کر استاذ نے مجھے جانے اور مصعب بھائی کو بھیجنے کا کہا۔اس سے پہلے کہ میں گاڑی سے نکلتا مجھے ایک اہم سوال یاد آیا جو استاذ سے کرنا تھا۔کچھ بھائیوں کی تشکیل ایک مشتبہ جاسوس سے تفتیش پر کی گئی تھی۔ان میں سے ایک بھائی نے مجھ سے یہ سوال استاذ سے پوچھنے کا کہا تھا اور یہ میں نے دریافت کیا۔ایک شخص کو اٹھایا گیا تھا جس پر ڈرون حملوں میں معاونت کے لیے، جاسوسی کا الزام تھا۔پھر اس کو ایک مرکز میں رکھا گیا۔نیز اس کو جسمانی سزا دی گئی۔بعد میں تفتیش و تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ شخص جاسوس نہیں تھا۔ اب یہاں دو سوالات تھے۔اولاً اس شخص کو اٹھایا تو کن بنیادوں پر؟ ثانیاً اس شخص کو جسمانی سزا دینے والے بھائی اب کیا کریں، کیا انہیں بدلہ لینے کے لیے پیش ہونا چاہیے؟
اسی کی ذیل میں یہ نکتہ بھی واضح رہے جیسا کہ ہم نے علماء سے سنا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں بس کسی مسلمان کو جاسوسی کے شبہہ میں نہیں اٹھایا جاتا اور نہ ہی کسی مسلمان کے بارے میں یہ بدگمانی کی جاتی ہے کہ یہ شخص جاسوس ہو گا، کہ مسلمانوں میں سے کفار کے لیے جاسوسی کرنے والا شخص تو غدار ہو گا اور مومن کے بارے میں یہ گمان تو بہت بری بات ہے۔سو اس بات کا جواب آئندہ سطور میں ان شاء اللہ موجود ہے۔
استاذ رحمہ اللہ نے یہ سوال سنا اور میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے پر ایک مخصوص تعجب اور فکر تھی، جو آئندہ کے مہ و سال میں کئی بار دیکھی، لیکن یہ پہلی بار تھا۔استاذ نے کچھ پریشانی ، کچھ جھنجھلاہٹ، کچھ عجیب سی کیفیت کا اظہار اپنے چہرے اور جسم کے تاثرات سےکیا۔پھر اپنی ڈائری نکالی اور کچھ لکھنے لگے۔پھر نہایت متفکر لہجے میں مگر دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ میں پوچھ کر بتاؤں گا۔
ابھی آگے استاذ کی بات جاری ہے لیکن یہاں رک کر کچھ تبصرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ استاذ ایک بہترین عالمِ دین تھے اور اس بات کو میرے جیسے کی گواہی نہیں چاہیے۔استاذ کا عمل، خصوصاً جہادی اعمال اور قتالی کارروائیاں، ان کی تصانیف اور اہلِ علم کی ملاقاتوں کے بعد ان کے بارے میں گواہیاں اور ان کے متعلق تاثرات، علوم و تفقہِ استاذ پر کافی دلیل ہیں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کئی لوگوں نے ان کو کبھی عالم تسلیم نہیں کیا۔وہ اکثر ان کی پِیٹھ پیچھے ان کے عالم نہ ہونے کی طعنہ زنی کرتے رہے۔مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی،مہتمم دار العلوم دیوبند فرماتے ہیں کہ ہمارے علمادو نسبتوں سے ہیں یا تو انہوں نے باقاعدہ کسی مدرسے میں علم و تعلم کا سفر طے کیا ہوتا ہے یا پھر وہ کسی استاذ کے پاس بیٹھ کر علمِ دین حاصل کرتے ہیں۔
ہم یہ بات وقت کے جید حنفی و سلفی علماسے بار ہا سن چکے ہیں کہ استاذ کا علم و تفقہ بتاتا ہے کہ وہ ایک بہترین عالمِ دین تھے۔اسی طرح حنفی و سلفی ہر دو طرف کے علماء اس بات کو جانتے ہیں کہ استاذ نے وقت کے بڑے بڑے مشائخ سے علمِ دین حاصل کیا۔ان مشائخ میں حکیم الامۃ شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ، شیخ مصطفیٰ ابو یزید ؍ شیخ سعیدؒ، شیخ عطیۃ اللہ اللیبیؒ، شیخ ابو یحییٰ اللیبیؒ، شیخ منصور شامیؒ، شیخ ابو دجانہ پاشا ؒ، استاذ کے رفیق و امیر مولانا عاصم عمر حفظہ اللہاور استاذ کے رفیق و حبیب مولانا سعید اللہ ؒوغیرہ شامل ہیں۔یہ وہ چند نام ہیں جنہیں راقم جانتا ہے یقیناً دیگر مشائخ و علماء بھی اس فہرست میں شامل ہوں گے۔
اس کے ساتھ جو مزید بات استاذ کے اس جملے کے ’پوچھ کر بتاؤں گا‘سےمعلوم ہوتی ہے وہ ہے استاذ کی تواضع۔مجھے میرے ایک اور استاد نے بتایا کہ علم کے ساتھ انسان میں تکبر آتا ہے کہ علم کی نسبت اللہ پاک سے ہے اور وہ ذاتِ عالی ہیں۔سو طالبِ علم و علماء میں بھی علو کا مادہ آجاتا ہے۔سو اس علو و تکبر کو تزکیہ و احسان سے تواضع و انکساری میں بدلا جاتا ہے۔ حضرتِ استاذ کے مزاج میں یہ تواضع جا بجا نظر آتی تھی۔ایک مجلس میں ایک ساتھی نے جو بعد میں اپنی غلطی سے تائب ہو گیا ، استاذ سے پہلے ایک مسئلہ دریافت کیا اور جواب پانے پر گستاخی کی کہ یہ مسئلہ کسی عالم سے بھی پوچھ لینا چاہیے۔استاذ کے ماتھے پر ایک بھی شکن نہ پڑی اور انہوں نے خاموشی اور اشارے سے اس بھائی کی اس بات کی تائید کی کہ ہاں کسی عالم سے پوچھ لینا چاہیے۔اللہ پاک ہم سب کو تواضع اور بڑوں کے ادب کی نعمت سے نوازے، آمین۔
؏ ادب پہلا قرینہ ہے، محبت کے قرینوں میں
’پوچھ کر بتاؤں گا‘، حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی عالم سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے اور وہ(جانتا ہو مگر) کہے کہ ’میں دیکھ کر بتاتا ہوں‘،