۲؍۴۳۸، زادالمعاد: ۲؍ ۲۵۷، مصنف ابن ابی شیبۃ بحوالہ عینی شرح کنز:۱۴۱، سنن دار قطنی:۴؍۳۱، مطبوعہ قاہرۃ]
حضرت حسن کا بیان ہے کہ ہم سے حضرت ابن عمرؓ نے بیان فرمایا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو حالت حیض میں ایک طلاق دیدی پھر ارادہ کیا کہ دوطہروں میں بقیہ دوطلاقیں دیدیں گے، حضور اقدسﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا اے ابنِ عمر! اس طرح اللہ نے تم کو حکم نہیں کیا ہے،تم نے سنت طریقہ کے خلاف کیا (کہ حالتِ حیض میں طلاق دیدی) سنت طریقہ یہ ہے کہ طہر کا انتظار کیا جائے اور ہر طہر میں ایک طلاق دی جائے اس کے بعد حضور اکرمﷺ نے مجھے رجوع کرنے کا حکم فرمایا چنانچہ میں نے رجوع کرلیا پھر فرمایا جب وہ پاک ہوجاوے تو تم کو اختیار ہے چاہو تو طلاق دیدینا یا اس کو روکے رکھنا، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں پھر میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ اگر میں نے تین طلاقیں دی ہوتیں تو کیا میرے لیے رجوع کرنا جائز ہوتا؟ حضور نے فرمایا نہیں، اس صورت میں بیوی تم سے جدا ہوجاتی اور تمہارا یہ فعل (تین طلاقیں ایک ساتھ دینا)گناہ ہوتا۔
آپ نے دیکھا کہ مذکورہ بالا حدیثوں میں تین طلاق سے تین ہی طلاق واقع ہونے کا حکم ہے۔ ان کے علاوہ اور بہت سی روایتیں صراحۃً اس پر دلالت کرتی ہیں کہ تین طلاقوں سے تین ہی طلاق واقع ہونگی، ایک نہیں۔
نوٹ: داکٹر ذاکر نائیک صاحب نے اپنی تقریر میں سعودیہ کے تین سو علما کے فتاوےٰ کا حوالہ دیا، پھر اپنی رائے بھی پیش کی ؛ لیکن یہ ذکر نہیں کیاکہ وہ کون سے علما ہیں جب کہ سعودی عرب کی تحقیقاتِ علمیہ کے موقر مفتیان نے تین طلاق سے تین ہی طلاق کا فتویٰ دیا ہے۔قرارداداس طرح ہے:
’’بعدالاطلاع علی البحث المقدم من الامانۃ العامۃ لھیءۃ کبارالعلماء والمعدمن قبل لجنۃ الدائمۃ للبحوث والافتاء فی موضوع’’الطلاق الثلاث بلفظ واحد‘‘ وبعد دراسۃ المسألۃ وتداول الرأی واستعراض الاقوال التی قیلت فیھا ومناقشۃ ماعلی کل قول من ایراد توصل المجلس بأکثریتہ الی اختیارالقول بوقوع الطلاق الثلاث بلفظ واحد ثلاثاً۔۔۔الخ‘‘[مجلۃ البحوث الاسلامیۃ، المجلد الاول،العددالثالث سنۃ ۱۳۹۷ھ]
(د)۔۔۔ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام ’’گفتگو‘‘ میں تقریر کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ:
’’مسلمانوں کو ایسا طریقہ اپنانا چاہیے کہ پوری دنیا میں ایک دن عید ہوسکے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ رائے ارشادِنبوی’’صوموالرؤیتہ وافطروالرؤیتہ‘‘ یعنی ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھواور چاند دیکھ کر ہی افطارکرو‘‘کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عقلِ سلیم کے بھی خلاف ہے؛ اس لیے کہ وحدتِ عید کا مسئلہ اصل میں اس بنیاد سے پیداہوتا ہے کہ عید کو ایک تہوار یا ملکی تقریب یا قومی ڈ ے قراردیا جائے؛مگر یہ انتہائی غلط سوچ ہے؛ اس لیے کہ ہماری عیدین،رمضان اور محرم کوئی تہوارنہیں؛ بلکہ سب کی سب عبادات ہیں،نیز اوقات کا ہرملک ہر خطہ میں وہاں کے افق کے اعتبارسے مختلف ہونا لازمی ہے، ہم ہندوستان میں جس وقت عصر کی نماز پڑھتے ہیں، اس وقت واشنگٹن میں صبح ہوتی ہے،جس وقت ہم ہندوستان میں ظہر کی نماز اداکرتے ہیں،اس وقت لندن میں مغرب کی نماز ہوچکی ہوتی ہے،نیز ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ملک میں جمعہ کا دن ہوتا ہے تو دوسرے میں ابھی جمعرات ہے اور تیسرے میں سنیچر کا دن شروع ہوچکا ہے، ان حالات میں کسی ایک دن میں پوری دنیا والوں کے عید منانے کا تصور کیسے کیا جاسکتاہے۔
الغرض ان تنقیدات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب بہت سے مسائل میں اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد سے ہٹے ہوئے ہیں،قرآن و حدیث کی تشریح میں لغتِ عرب اور سلف سے منقول تفاسیر کو نظر انداز کرکے عقلِ خام کی مددسے تفسیر کرکے، تحریف معنوی کے شکار ہیں، نیز وہ (ڈاکٹر صاحب) علومِ شرعیہ اور مقاصدشریعت سے گہری واقفیت نہ ہونے کے باوجود کسی امام کی تقلید نہیں کرتے؛ بلکہ الٹے وہ ائمہ مجتہدین پر تنقیدکرتے ہیں؛ اس لیے ان(ڈاکٹر صاحب) کی باتیں ہر گز قابل اعتبار نہیں،ان کے پروگرام کو دیکھنا ،ان کے بیانات سننا اور بلاتحقیق ان پر عمل کرنا سخت مضر ہے۔ اور چونکہ واقعی تحقیق کرنا ہرکس و ناکس کی بات نہیں؛ اس لیے ان کے پروگرام سے عامۃ المسلمین کو احتراز کرنا ضروری ہے۔ نیز ہر مؤمن کو یہ بات ہمیشہ مستحضر رکھنا چاہیے کہ دین کا معاملہ ،جوایک حساس معاملہ ہے،انسان دین کی باتیں سنتا اوران پر عمل کرتاہے، صرف آخرت میں نجات پانے کے لیے ،اس میں صرف نئی نئی تحقیق،برجستہ جوابات، حوالوں کی کثرت اور لوگوں میں بہ ظاہر مقبولیت دیکھ کر، بلا تحقیق کسی بات پر ہرگزعمل نہیں کرناچاہیے؛ بلکہ انسان پر ضروری ہے کہ وہ غور کرلے کہ وہ آدمی دینی علوم میں کیا اہلیت رکھتاہے؟کن اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے؟ کس ماحو ل میں اس کی پرورش ہوئی، اس کی وضع قطع، لباس، ہئت دیگرعلما وصلحاسے میل کھاتی ہے یا نہیں؟نیز معاصر قابل اعتماد علما اور مشائخ کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اسی طرح یہ بھی دیکھ لیناضروری ہے کہ اس سے متأثر ہونے والوں اور اس کے گرد جمع ہونے والوں میں صحیح
حضرت حسن کا بیان ہے کہ ہم سے حضرت ابن عمرؓ نے بیان فرمایا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو حالت حیض میں ایک طلاق دیدی پھر ارادہ کیا کہ دوطہروں میں بقیہ دوطلاقیں دیدیں گے، حضور اقدسﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا اے ابنِ عمر! اس طرح اللہ نے تم کو حکم نہیں کیا ہے،تم نے سنت طریقہ کے خلاف کیا (کہ حالتِ حیض میں طلاق دیدی) سنت طریقہ یہ ہے کہ طہر کا انتظار کیا جائے اور ہر طہر میں ایک طلاق دی جائے اس کے بعد حضور اکرمﷺ نے مجھے رجوع کرنے کا حکم فرمایا چنانچہ میں نے رجوع کرلیا پھر فرمایا جب وہ پاک ہوجاوے تو تم کو اختیار ہے چاہو تو طلاق دیدینا یا اس کو روکے رکھنا، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں پھر میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ اگر میں نے تین طلاقیں دی ہوتیں تو کیا میرے لیے رجوع کرنا جائز ہوتا؟ حضور نے فرمایا نہیں، اس صورت میں بیوی تم سے جدا ہوجاتی اور تمہارا یہ فعل (تین طلاقیں ایک ساتھ دینا)گناہ ہوتا۔
آپ نے دیکھا کہ مذکورہ بالا حدیثوں میں تین طلاق سے تین ہی طلاق واقع ہونے کا حکم ہے۔ ان کے علاوہ اور بہت سی روایتیں صراحۃً اس پر دلالت کرتی ہیں کہ تین طلاقوں سے تین ہی طلاق واقع ہونگی، ایک نہیں۔
نوٹ: داکٹر ذاکر نائیک صاحب نے اپنی تقریر میں سعودیہ کے تین سو علما کے فتاوےٰ کا حوالہ دیا، پھر اپنی رائے بھی پیش کی ؛ لیکن یہ ذکر نہیں کیاکہ وہ کون سے علما ہیں جب کہ سعودی عرب کی تحقیقاتِ علمیہ کے موقر مفتیان نے تین طلاق سے تین ہی طلاق کا فتویٰ دیا ہے۔قرارداداس طرح ہے:
’’بعدالاطلاع علی البحث المقدم من الامانۃ العامۃ لھیءۃ کبارالعلماء والمعدمن قبل لجنۃ الدائمۃ للبحوث والافتاء فی موضوع’’الطلاق الثلاث بلفظ واحد‘‘ وبعد دراسۃ المسألۃ وتداول الرأی واستعراض الاقوال التی قیلت فیھا ومناقشۃ ماعلی کل قول من ایراد توصل المجلس بأکثریتہ الی اختیارالقول بوقوع الطلاق الثلاث بلفظ واحد ثلاثاً۔۔۔الخ‘‘[مجلۃ البحوث الاسلامیۃ، المجلد الاول،العددالثالث سنۃ ۱۳۹۷ھ]
(د)۔۔۔ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام ’’گفتگو‘‘ میں تقریر کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ:
’’مسلمانوں کو ایسا طریقہ اپنانا چاہیے کہ پوری دنیا میں ایک دن عید ہوسکے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ رائے ارشادِنبوی’’صوموالرؤیتہ وافطروالرؤیتہ‘‘ یعنی ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھواور چاند دیکھ کر ہی افطارکرو‘‘کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عقلِ سلیم کے بھی خلاف ہے؛ اس لیے کہ وحدتِ عید کا مسئلہ اصل میں اس بنیاد سے پیداہوتا ہے کہ عید کو ایک تہوار یا ملکی تقریب یا قومی ڈ ے قراردیا جائے؛مگر یہ انتہائی غلط سوچ ہے؛ اس لیے کہ ہماری عیدین،رمضان اور محرم کوئی تہوارنہیں؛ بلکہ سب کی سب عبادات ہیں،نیز اوقات کا ہرملک ہر خطہ میں وہاں کے افق کے اعتبارسے مختلف ہونا لازمی ہے، ہم ہندوستان میں جس وقت عصر کی نماز پڑھتے ہیں، اس وقت واشنگٹن میں صبح ہوتی ہے،جس وقت ہم ہندوستان میں ظہر کی نماز اداکرتے ہیں،اس وقت لندن میں مغرب کی نماز ہوچکی ہوتی ہے،نیز ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ملک میں جمعہ کا دن ہوتا ہے تو دوسرے میں ابھی جمعرات ہے اور تیسرے میں سنیچر کا دن شروع ہوچکا ہے، ان حالات میں کسی ایک دن میں پوری دنیا والوں کے عید منانے کا تصور کیسے کیا جاسکتاہے۔
الغرض ان تنقیدات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب بہت سے مسائل میں اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد سے ہٹے ہوئے ہیں،قرآن و حدیث کی تشریح میں لغتِ عرب اور سلف سے منقول تفاسیر کو نظر انداز کرکے عقلِ خام کی مددسے تفسیر کرکے، تحریف معنوی کے شکار ہیں، نیز وہ (ڈاکٹر صاحب) علومِ شرعیہ اور مقاصدشریعت سے گہری واقفیت نہ ہونے کے باوجود کسی امام کی تقلید نہیں کرتے؛ بلکہ الٹے وہ ائمہ مجتہدین پر تنقیدکرتے ہیں؛ اس لیے ان(ڈاکٹر صاحب) کی باتیں ہر گز قابل اعتبار نہیں،ان کے پروگرام کو دیکھنا ،ان کے بیانات سننا اور بلاتحقیق ان پر عمل کرنا سخت مضر ہے۔ اور چونکہ واقعی تحقیق کرنا ہرکس و ناکس کی بات نہیں؛ اس لیے ان کے پروگرام سے عامۃ المسلمین کو احتراز کرنا ضروری ہے۔ نیز ہر مؤمن کو یہ بات ہمیشہ مستحضر رکھنا چاہیے کہ دین کا معاملہ ،جوایک حساس معاملہ ہے،انسان دین کی باتیں سنتا اوران پر عمل کرتاہے، صرف آخرت میں نجات پانے کے لیے ،اس میں صرف نئی نئی تحقیق،برجستہ جوابات، حوالوں کی کثرت اور لوگوں میں بہ ظاہر مقبولیت دیکھ کر، بلا تحقیق کسی بات پر ہرگزعمل نہیں کرناچاہیے؛ بلکہ انسان پر ضروری ہے کہ وہ غور کرلے کہ وہ آدمی دینی علوم میں کیا اہلیت رکھتاہے؟کن اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے؟ کس ماحو ل میں اس کی پرورش ہوئی، اس کی وضع قطع، لباس، ہئت دیگرعلما وصلحاسے میل کھاتی ہے یا نہیں؟نیز معاصر قابل اعتماد علما اور مشائخ کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اسی طرح یہ بھی دیکھ لیناضروری ہے کہ اس سے متأثر ہونے والوں اور اس کے گرد جمع ہونے والوں میں صحیح