یعرفون العربیۃ، فلوکان لیس فیھم من یحسن الاتیان بالخطبۃ عربیۃ لایلزمھم جمعۃ‘‘ [حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر:۱؍۳۷۸،نقلا عن المقالات الفقھیۃ] ینز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خطبہ کا خاص عربی زبان ہی میں ہونا ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کا مشرق و مغرب میں ہمیشہ اسی پر عمل رہا ہے۔[مصفی شرح موطا:۱۵۲،م:مطبع فاروق دہلی]
(ج) ۔۔۔تین طلاق سے ایک ہی طلاق ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر ذاکر صاحب فرماتے ہیں:
’’تین طلاق کے لیے اتنی شرائط ہیں، جن کا پوراہونا ناممکن ہے، سعودیہ کے تین سو فتوے موجود ہیں، اس لیے طلاق ایک ہے، آج کے حالات کے مطابق ایک ہونی چاہیے۔‘‘
[خطبات ذاکر نائیک بحوالہ حقیقت ذاکر نائیک:۳۳۱]
حالاں کہ صحابۂ کرام، تابعین عظام ائمہ اربعہ اور جمہور امت، نیز موجودہ دور کے سعودیہ عربیہ کے تمام معتبر علما کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق سے تین ہی طلاق واقع ہوتی ہیں ایک نہیں، اس مسئلے میں پوری تاریخ میں کسی معتبر عالم کا اختلاف نہیں،سوائے علامہ ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد علامہ ابن القیمؒ کے؛ لیکن پوری امت (جن میں بڑے بڑے تابعین،چاروں ائمہ امام ابو حنیفہؒ ، امام شافعیؒ ، امام مالکؒ ، اور امام احمد بن حنبلؒ شامل ہیں) کے مقابلے میں ان دو حضرات کی رائے قطعا قابلِ اتباع نہیں ہے، ڈاکٹر صاحب ایسے اجماعی حکم کے خلاف مسئلہ بیان کرکے امت کو گمراہ کررہے ہیں۔ یہ حکم یعنی تین طلاقوں سے تین ہی طلاق کا واقع ہونا قرآن کی آیت، بے شمار احادیث اور صحابہ کرام کے تعامل سے واضح طور پر ثابت ہے، چندحدیثیں ملاحظہ فرمائیں:
(۱)۔۔۔وقال اللیث عن نافع کان ابن عمر اذا سئل عن من طلق ثلاثا قال لو طلقتَ مرۃ اومرتین (لکان لک الرجعۃ) فان النبیﷺ امرنی بھذا(ای بالمراجعۃ) فان طلقھا ثلاثا حرمت حتی تنکح زوجا غیرہ [بخاری شریف،۲:۷۹۲، نیز۲:۸۰۳]
حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے جب اس شخص کے متعلق فتویٰ دریافت کیا جاتا جس نے تین طلاقیں دی ہوں، تو فرماتے اگر تونے ایک یا دو طلاق دی ہوتی(تو رجوع کرسکتا تھا) اس لیے کہ حضور اکرمﷺ نے مجھ کو اس کا (یعنی رجعت کا) حکم دیا تھا،اور اگر تین طلاق دیدے تو عورت حرام ہوجائے گی یہاں تک کہ وہ دوسرے مرد سے نکاح کرے۔
(۲)۔۔۔عن مجاہد قال کنت عندابن عباس فجاء ہ رجل فقال : انہ طلق امرأتہ ثلاثا، قال: فسکت حتی ظننت انہ رادھا الیہ،ثم قال: ینطلق احدکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یاابن عباس یاابن عباس فان اللہ عزوجل قال:ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا.عصیت ربک وبانت منک امرأتک.[أخرجہ أبو داود: ۱؍۲۹۹،باب فی الطلاق علی الھزل، رقم:۱۸۷۸]
حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں ابنِ عباسؓ کے پاس تھا، کہ ایک شیخ آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی، فرماتے ہیں کہ حضرت عباس خاموش رہے میں سمجھا کہ وہ اس کی بیوی کو لوٹا دیں گے(رجعت کا حکم دیں گے) مگر فرمایا: تم میں سے کوئی شخص حماقت کربیٹھتا ہے(تین طلاق دیدیتا ہے) پھر چلاتا ہے ابنِ عباس! ابن عباس!تو( سنو!) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے راہ نکالتے ہیں‘‘تم نے تو اپنے رب کی نافرمانی کی(تین طلاق دیدی) اس لیے تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔
(۳)۔۔۔ وعن مالک بلغہ: ان رجلا قال لعبداللہ بن عباس:انی طلقت امرأتی ماءۃ تطلیقہ، فماذا تری علی؟ فقال ابن عباس: طلقت منک بثلاث، وسبع و تسعون اتخذت بھا آیات ھزوا. [اخرجہ الامام مالک:۱۹۹]
حضرت امام مالکؒ کو یہ روایت پہنچی کہ ایک آدمی نے عبداللہ ابن عباسؓ سے دریافت کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیدیں، آپ اس سلسلے میں کیا فرماے ہیں؟ تو ابن عباسؓ نے جواب دیا: (ان میں سے) تین طلاقیں تیری بیوی پر پڑگئیں، اور ستانوے طلاقوں سے تو نے اللہ کی آیتوں کا کھلواڑ کیا۔
(۴)۔۔۔عن مالک بلغہ: ان رجلا جاء الی عبداللہ ابن مسعود فقال:انی طلقت امرأتی ثمانی تطلیقات، قال ابن مسعود فماذا قیل لک؟ قال: قیل لی: انھا قد بانت منی، فقال ابن مسعود صدقوا۔ (الحدیث) [المؤطا للامام مالک:۱۹۹]
حضرت امام مالکؒ کو یہ روایت پہنچی کہ ایک آد می عبداللہ ابن مسعودؓ کے پاس آیا، اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دی ہیں۔حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا کہ لوگوں نے تمہیں کیا کہا؟ اس نے جواب دیا کہ میری بیوی بائنہ ہوگئی۔ تو حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا:سچ کہا۔(یعنی تین طلاقیں پڑگئیں)
(۵)۔۔۔حدثناعلی بن محمد بن عبید الحافظ نا محمد بن شاذان الجوہری نا معلی بن منصور نا شعیب بن رزیق ان عطاء الخراسانی حدثھم عن الحسن قال نا عبداللہ بن عمر انہ طلق امرأتہ تطلیقہ وھی حائض ثم اراد ان یتبعھا بتطلیقتین اخریین عندالقرأین فبلغ ذلک رسول اللہﷺ فقال یا بن عمر ماھکذاامرک اللہ انک قد اخطأت السنۃ۔ والسنۃ ان تسقبل الطہرفیطلق لکل قرء قال فامرنی رسول اللہﷺ فراجعتھا ثم قال اذا ہی طہرت فطلق عند ذلک اوامسک فقلت یا رسول اللہ ارأیت لو انی طلقتھا ثلثا اکان یحل لی ان اراجعھا قال لا، کانت تبین منک وتکون معصیۃ۔[سنن دار قطنی:
(ج) ۔۔۔تین طلاق سے ایک ہی طلاق ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر ذاکر صاحب فرماتے ہیں:
’’تین طلاق کے لیے اتنی شرائط ہیں، جن کا پوراہونا ناممکن ہے، سعودیہ کے تین سو فتوے موجود ہیں، اس لیے طلاق ایک ہے، آج کے حالات کے مطابق ایک ہونی چاہیے۔‘‘
[خطبات ذاکر نائیک بحوالہ حقیقت ذاکر نائیک:۳۳۱]
حالاں کہ صحابۂ کرام، تابعین عظام ائمہ اربعہ اور جمہور امت، نیز موجودہ دور کے سعودیہ عربیہ کے تمام معتبر علما کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق سے تین ہی طلاق واقع ہوتی ہیں ایک نہیں، اس مسئلے میں پوری تاریخ میں کسی معتبر عالم کا اختلاف نہیں،سوائے علامہ ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد علامہ ابن القیمؒ کے؛ لیکن پوری امت (جن میں بڑے بڑے تابعین،چاروں ائمہ امام ابو حنیفہؒ ، امام شافعیؒ ، امام مالکؒ ، اور امام احمد بن حنبلؒ شامل ہیں) کے مقابلے میں ان دو حضرات کی رائے قطعا قابلِ اتباع نہیں ہے، ڈاکٹر صاحب ایسے اجماعی حکم کے خلاف مسئلہ بیان کرکے امت کو گمراہ کررہے ہیں۔ یہ حکم یعنی تین طلاقوں سے تین ہی طلاق کا واقع ہونا قرآن کی آیت، بے شمار احادیث اور صحابہ کرام کے تعامل سے واضح طور پر ثابت ہے، چندحدیثیں ملاحظہ فرمائیں:
(۱)۔۔۔وقال اللیث عن نافع کان ابن عمر اذا سئل عن من طلق ثلاثا قال لو طلقتَ مرۃ اومرتین (لکان لک الرجعۃ) فان النبیﷺ امرنی بھذا(ای بالمراجعۃ) فان طلقھا ثلاثا حرمت حتی تنکح زوجا غیرہ [بخاری شریف،۲:۷۹۲، نیز۲:۸۰۳]
حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے جب اس شخص کے متعلق فتویٰ دریافت کیا جاتا جس نے تین طلاقیں دی ہوں، تو فرماتے اگر تونے ایک یا دو طلاق دی ہوتی(تو رجوع کرسکتا تھا) اس لیے کہ حضور اکرمﷺ نے مجھ کو اس کا (یعنی رجعت کا) حکم دیا تھا،اور اگر تین طلاق دیدے تو عورت حرام ہوجائے گی یہاں تک کہ وہ دوسرے مرد سے نکاح کرے۔
(۲)۔۔۔عن مجاہد قال کنت عندابن عباس فجاء ہ رجل فقال : انہ طلق امرأتہ ثلاثا، قال: فسکت حتی ظننت انہ رادھا الیہ،ثم قال: ینطلق احدکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یاابن عباس یاابن عباس فان اللہ عزوجل قال:ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا.عصیت ربک وبانت منک امرأتک.[أخرجہ أبو داود: ۱؍۲۹۹،باب فی الطلاق علی الھزل، رقم:۱۸۷۸]
حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں ابنِ عباسؓ کے پاس تھا، کہ ایک شیخ آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی، فرماتے ہیں کہ حضرت عباس خاموش رہے میں سمجھا کہ وہ اس کی بیوی کو لوٹا دیں گے(رجعت کا حکم دیں گے) مگر فرمایا: تم میں سے کوئی شخص حماقت کربیٹھتا ہے(تین طلاق دیدیتا ہے) پھر چلاتا ہے ابنِ عباس! ابن عباس!تو( سنو!) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے راہ نکالتے ہیں‘‘تم نے تو اپنے رب کی نافرمانی کی(تین طلاق دیدی) اس لیے تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔
(۳)۔۔۔ وعن مالک بلغہ: ان رجلا قال لعبداللہ بن عباس:انی طلقت امرأتی ماءۃ تطلیقہ، فماذا تری علی؟ فقال ابن عباس: طلقت منک بثلاث، وسبع و تسعون اتخذت بھا آیات ھزوا. [اخرجہ الامام مالک:۱۹۹]
حضرت امام مالکؒ کو یہ روایت پہنچی کہ ایک آدمی نے عبداللہ ابن عباسؓ سے دریافت کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیدیں، آپ اس سلسلے میں کیا فرماے ہیں؟ تو ابن عباسؓ نے جواب دیا: (ان میں سے) تین طلاقیں تیری بیوی پر پڑگئیں، اور ستانوے طلاقوں سے تو نے اللہ کی آیتوں کا کھلواڑ کیا۔
(۴)۔۔۔عن مالک بلغہ: ان رجلا جاء الی عبداللہ ابن مسعود فقال:انی طلقت امرأتی ثمانی تطلیقات، قال ابن مسعود فماذا قیل لک؟ قال: قیل لی: انھا قد بانت منی، فقال ابن مسعود صدقوا۔ (الحدیث) [المؤطا للامام مالک:۱۹۹]
حضرت امام مالکؒ کو یہ روایت پہنچی کہ ایک آد می عبداللہ ابن مسعودؓ کے پاس آیا، اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دی ہیں۔حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا کہ لوگوں نے تمہیں کیا کہا؟ اس نے جواب دیا کہ میری بیوی بائنہ ہوگئی۔ تو حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا:سچ کہا۔(یعنی تین طلاقیں پڑگئیں)
(۵)۔۔۔حدثناعلی بن محمد بن عبید الحافظ نا محمد بن شاذان الجوہری نا معلی بن منصور نا شعیب بن رزیق ان عطاء الخراسانی حدثھم عن الحسن قال نا عبداللہ بن عمر انہ طلق امرأتہ تطلیقہ وھی حائض ثم اراد ان یتبعھا بتطلیقتین اخریین عندالقرأین فبلغ ذلک رسول اللہﷺ فقال یا بن عمر ماھکذاامرک اللہ انک قد اخطأت السنۃ۔ والسنۃ ان تسقبل الطہرفیطلق لکل قرء قال فامرنی رسول اللہﷺ فراجعتھا ثم قال اذا ہی طہرت فطلق عند ذلک اوامسک فقلت یا رسول اللہ ارأیت لو انی طلقتھا ثلثا اکان یحل لی ان اراجعھا قال لا، کانت تبین منک وتکون معصیۃ۔[سنن دار قطنی: