عزیزو! توجہ کریں؛ کیا کہہ رہا ہے، یہ مرد اہل سنت کے بڑے علماء میں سے ایک ہے؛ دیکھیں! کیا کہہ رہا ہے، بعض کہتے ہیں کہ جناب سید! آپ فرق کیوں کرتے ہیں آپ علمائے اہل سنت اور اموی تفکر ابن تیمیہ، اس کے پیروکاروں، وہابیت اور سعودی عرب کے علماء کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں آپ کہتے ہیں کہ یہ ایک جہت ہے اور وہ ایک دوسری جہت ہے عزیزو! توجہ کیجئے، یہ کتاب کے صفحہ (تیس اور اکتیس) پر کیا کہتے ہیں؛
میں عزیزوں کا کچھ وقت لوں گا لیکن یہ اہم ہے؛
کہتے ہیں: امام حاکم کہتے ہیں کہ میں اللہ کی حمد سے ابتدا کرتا ہوں اور اسی سے ہدایت کا طالب ہوں اور اس کی توفیق پر اکتفا کرتا ہوں اور میں صلوات بھیجتا ہوں محمدؐ پر جو نبی ہیں اور آپؐ کی آل پر، جب بھی ذکر کرنے والے ان کا ذکر کرتے ہیں اور غافل ان سے غافل ہوتے ہیں۔
میزبان: اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس زمانے میں بھی غافل تھے؟!
سید: توجہ کیجئے، (جب بھی ذکر کرنے والے ان کا ذکر کرتے ہیں اور غفلت کرنے والے ان سے غافل ہوتے ہیں) یہ امر منشا ہے کہ انہوں نے حضرت فاطمہ زہراؑ کے فضائل کے بارے میں لکھنا شروع کیا۔
ہمارے زمانے نے ہمیں ایسے حکمرانوں کے دور میں لاکھڑا کیا ہے کہ لوگ آل رسول کے بغض کے ذریعے ان کا قرب حاصل کرتے ہیں۔
عزیزو! تیسری اور چوتھی صدی میں یہ ایک رجحان تھا اور میں نے کہا کہ اس کے اثرات ابھی تک موجود ہیں جو بھی انہیں کوئی درخواست پیش کرتا ہے تو وہ آل کے بارے میں ایسی باتیں ذکر کر کے درخواست کرتا ہے کہ جن سے اللہ نے انہیں پاک اور بری رکھا ہے اور ہر فضیلت کہ جو ان کے فضائل میں ذکر کی جاتی ہے، کا انکار کر کے درخواست کرتا ہے۔
کہتے ہیں: بنیادی طور پر ایک مکتب فکر تھا کہ جس چیز کا تعلق بھی اہل بیتؑ کے فضائل سے ہو اسے بالضرور امت کی یادداشت سے محو کر دیا جائے (اس پر اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ محمد وآل محمد پر درود بھیجے اور خوارج کے بدلے ہمیں بہتر حاکم عطا فرمائے) خوارج سے ان کا مقصود نواصب ہے، ان کی مراد اصطلاحی خوارج نہیں ہے۔
(جو چیزیں اس رسالے کی تحریر کا باعث بنی) سبب! کہ یہ رسالہ میں نے لکھا؛
آپ فضائل میں کیوں لکھ رہے ہیں؟کیا کوئی ایسا بھی ہے جو آپ سلام اللہ علیھا کے فضائل کا انکار کرتا ہو کہ آپ کو کچھ لکھنا پڑے؟
کہتے ہیں: میں ایک محفل میں حاضر ہوا کہ جہاں بڑے بڑے فقہا، قاضی اور معتبر لوگ تشریف فرما تھے پس یہ محفل کس کی تھی؟ علم، فقہ، قضاوت اور بہترین تعبیر کے مطابق ممتاز علمی شخصیات کی محفل تھی۔ (ان کے سامنے امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ کا تذکرہ ہوا تو ایک بڑے فقیہ نے اعتراض اٹھایا کہ علیؑ کو قرآن حفظ نہیں تھا) یہ چیز مسلمات میں سے ہے؛ علیؑ کا قرآن سے کیا تعلق ہے !
وہ علیؑ جو قرآن سے جدا نہیں ہیں اور قرآن ان سے جدا نہیں ہے؛ وہ علی جن کے بارے میں رسول اللہؐ نے فرمایا ہے: «تركت فيكم كتاب الله وعترتي» اور علیؑ ان میں سے ہیں ؛ یہ دونوں جدا ہرگز جدا نہیں ہوں گے انہیں قرآن حفظ نہیں ہے ؟!
اور اس شعبی نے اس کی تصریح کی ہے ؛ شعبی کے بارے میں کیا مشہور ہے؟
میزبان: کہ وہ ناصبی ہے؛
سید: بہرحال وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: شعبی کے علاوہ کچھ اور نے بھی ایسا کہا ہے مگر صحابہ جو شعبی سے زیادہ اس امر کے بارے میں علم رکھتے تھے انہوں نے آپؑ کے حفظ قرآن کی شہادت دی ہے اور تابعین کے سید القراء ابو عبد الرحمن سلمی نے آپؑ کی خدمت میں قرآن کی قرائت پیش کی ۔
پھر اسی مجلس میں بنات نبیؐ کا تذکرہ شروع ہو گیا؛ زینب، رقیہ، ام کلثوم؛ بعض نے کہا: راوی منکر ہیں کہ یہ خدیجہؑ کی رسول اللہؐ سے بیٹیاں تھیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں مشہور یہی تھا کہ یہ رسول اللہﷺ کی بیٹیاں نہیں ہیں؛ اور یہی امر درست ہے؛
حاکم کہتے ہیں : وہ بھی خدیجہ کے بطن سے آپؐ کی بیٹیاں ہیں مگر فاطمہؑ کا ذکر روایات میں زیادہ مشہور ہے اور ان کے روایات میں فضائل بہت زیادہ ہیں۔
ایک شخص نے میری بات کاٹ دی کہ جو پہلے میرے پاس (حصول علم کیلئے) آیا کرتا تھا وہ حاکم کا شاگرد تھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا عرصہ دراز تک میری صحبت میں رہا۔
وہ فوری طور پر محفل میں کھڑا ہو گیا اور میری بات کاٹ دی!
حاکم کہتے ہیں: اس کا سبب یہ تھا کہ وہ ناصبیت دکھا کر بعض حاضرین کا قرب حاصل کرنا چاہتا تھا۔
سید: یہ علمی محافل تھیں، یہ کن لوگوں کی محفلیں ہوا کرتی تھیں؟
میزبان: پڑھی لکھی اور ممتاز شخصیات کی؛
میں عزیزوں کا کچھ وقت لوں گا لیکن یہ اہم ہے؛
کہتے ہیں: امام حاکم کہتے ہیں کہ میں اللہ کی حمد سے ابتدا کرتا ہوں اور اسی سے ہدایت کا طالب ہوں اور اس کی توفیق پر اکتفا کرتا ہوں اور میں صلوات بھیجتا ہوں محمدؐ پر جو نبی ہیں اور آپؐ کی آل پر، جب بھی ذکر کرنے والے ان کا ذکر کرتے ہیں اور غافل ان سے غافل ہوتے ہیں۔
میزبان: اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس زمانے میں بھی غافل تھے؟!
سید: توجہ کیجئے، (جب بھی ذکر کرنے والے ان کا ذکر کرتے ہیں اور غفلت کرنے والے ان سے غافل ہوتے ہیں) یہ امر منشا ہے کہ انہوں نے حضرت فاطمہ زہراؑ کے فضائل کے بارے میں لکھنا شروع کیا۔
ہمارے زمانے نے ہمیں ایسے حکمرانوں کے دور میں لاکھڑا کیا ہے کہ لوگ آل رسول کے بغض کے ذریعے ان کا قرب حاصل کرتے ہیں۔
عزیزو! تیسری اور چوتھی صدی میں یہ ایک رجحان تھا اور میں نے کہا کہ اس کے اثرات ابھی تک موجود ہیں جو بھی انہیں کوئی درخواست پیش کرتا ہے تو وہ آل کے بارے میں ایسی باتیں ذکر کر کے درخواست کرتا ہے کہ جن سے اللہ نے انہیں پاک اور بری رکھا ہے اور ہر فضیلت کہ جو ان کے فضائل میں ذکر کی جاتی ہے، کا انکار کر کے درخواست کرتا ہے۔
کہتے ہیں: بنیادی طور پر ایک مکتب فکر تھا کہ جس چیز کا تعلق بھی اہل بیتؑ کے فضائل سے ہو اسے بالضرور امت کی یادداشت سے محو کر دیا جائے (اس پر اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ محمد وآل محمد پر درود بھیجے اور خوارج کے بدلے ہمیں بہتر حاکم عطا فرمائے) خوارج سے ان کا مقصود نواصب ہے، ان کی مراد اصطلاحی خوارج نہیں ہے۔
(جو چیزیں اس رسالے کی تحریر کا باعث بنی) سبب! کہ یہ رسالہ میں نے لکھا؛
آپ فضائل میں کیوں لکھ رہے ہیں؟کیا کوئی ایسا بھی ہے جو آپ سلام اللہ علیھا کے فضائل کا انکار کرتا ہو کہ آپ کو کچھ لکھنا پڑے؟
کہتے ہیں: میں ایک محفل میں حاضر ہوا کہ جہاں بڑے بڑے فقہا، قاضی اور معتبر لوگ تشریف فرما تھے پس یہ محفل کس کی تھی؟ علم، فقہ، قضاوت اور بہترین تعبیر کے مطابق ممتاز علمی شخصیات کی محفل تھی۔ (ان کے سامنے امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ کا تذکرہ ہوا تو ایک بڑے فقیہ نے اعتراض اٹھایا کہ علیؑ کو قرآن حفظ نہیں تھا) یہ چیز مسلمات میں سے ہے؛ علیؑ کا قرآن سے کیا تعلق ہے !
وہ علیؑ جو قرآن سے جدا نہیں ہیں اور قرآن ان سے جدا نہیں ہے؛ وہ علی جن کے بارے میں رسول اللہؐ نے فرمایا ہے: «تركت فيكم كتاب الله وعترتي» اور علیؑ ان میں سے ہیں ؛ یہ دونوں جدا ہرگز جدا نہیں ہوں گے انہیں قرآن حفظ نہیں ہے ؟!
اور اس شعبی نے اس کی تصریح کی ہے ؛ شعبی کے بارے میں کیا مشہور ہے؟
میزبان: کہ وہ ناصبی ہے؛
سید: بہرحال وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: شعبی کے علاوہ کچھ اور نے بھی ایسا کہا ہے مگر صحابہ جو شعبی سے زیادہ اس امر کے بارے میں علم رکھتے تھے انہوں نے آپؑ کے حفظ قرآن کی شہادت دی ہے اور تابعین کے سید القراء ابو عبد الرحمن سلمی نے آپؑ کی خدمت میں قرآن کی قرائت پیش کی ۔
پھر اسی مجلس میں بنات نبیؐ کا تذکرہ شروع ہو گیا؛ زینب، رقیہ، ام کلثوم؛ بعض نے کہا: راوی منکر ہیں کہ یہ خدیجہؑ کی رسول اللہؐ سے بیٹیاں تھیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں مشہور یہی تھا کہ یہ رسول اللہﷺ کی بیٹیاں نہیں ہیں؛ اور یہی امر درست ہے؛
حاکم کہتے ہیں : وہ بھی خدیجہ کے بطن سے آپؐ کی بیٹیاں ہیں مگر فاطمہؑ کا ذکر روایات میں زیادہ مشہور ہے اور ان کے روایات میں فضائل بہت زیادہ ہیں۔
ایک شخص نے میری بات کاٹ دی کہ جو پہلے میرے پاس (حصول علم کیلئے) آیا کرتا تھا وہ حاکم کا شاگرد تھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا عرصہ دراز تک میری صحبت میں رہا۔
وہ فوری طور پر محفل میں کھڑا ہو گیا اور میری بات کاٹ دی!
حاکم کہتے ہیں: اس کا سبب یہ تھا کہ وہ ناصبیت دکھا کر بعض حاضرین کا قرب حاصل کرنا چاہتا تھا۔
سید: یہ علمی محافل تھیں، یہ کن لوگوں کی محفلیں ہوا کرتی تھیں؟
میزبان: پڑھی لکھی اور ممتاز شخصیات کی؛