[اسلام پر چالیس اعتراضات:۱۳۰، ازڈاکٹر ذاکر نائک، م:اریب پبلیکیشنر، دہلی]
ڈاکٹر صاحب نے یہاں سائنسی تحقیق سے مرعوب ہو کر، اس سے پیدا ہونے والے سرسری اعتراض سے بچنے کے لیے ، قرآن کی دوسری آیت اور صحابہ و تابعین سے منقول تفسیر کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، ایک معروف معنی کا انکار کردیا اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید اور ان کی تغلیط کرڈالی۔ ڈاکٹر صاحب نے جو معنی بیان کیا ہے’ما‘ موصولہ کے عموم میں آسکتا ہے اور بہت سے مفسرین نے ایک احتمال کے طور پر، پہلے معنی کے ضمن میں اس کا بھی ذکر کیا ہے؛ لیکن دوسرے معنی کا انکار کردینا قطعاً صحیح نہیں؛ بلکہ ڈاکٹر صاحب کی قلت تدبر او رتفسیر میں صحابہ اور تابعین کے اقوال سے روگردانی کی واضح دلیل ہے؛ اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب نے جس معنی کی نفی کی ہے، اسی کی طرف سورۂ رعد کی آیت:اللہ یعلم ماتحمل کل انثی وما تغیض الارحام وما تزداد. [الرعد:۸] ’’یعنی اللہ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہے کہ جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے اور جو کچھ رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے‘‘ اشارہ کررہی ہے، نیز مشہور تابعی اور تفسیر کے امام قتادہؒ سے بھی یہی معنی مروی ہے، چنانچہ حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں:’’فلا تعلم مافی الارحام اذکر ام انثی.‘‘ الخ یعنی رحم مادر میں نر ہے یا مادہ اس کا قطعی علم سوائے خدا کے کسی ااور کو نہیں، اسی طرح ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر[۶/۳۵۵] میں، علامہ نسفیؒ نے تفسیر مدارک[۳/۱۱۶] میں اور امام شوکانیؒ نے فتح القدیر[۵/۴۹۸]میں مذکورہ آیت کا یہی معنی بیان فرمایا ؛لیکن ڈاکٹر صاحب ان اکابر مفسرین کے بیان کردہ معنی کو غلط ٹھہراکر ، اپنے بیان کردہ معنی کو قطعی سمجھ کر اسی پر مصر ہیں۔
صحیح جواب:آیتِ کریمہ کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لیے علمِ غیب کو ثابت کرناہے اور علم غیب در حقیقت اس یقینی علم کو کہا جاتا ہے جو کسی سبب ظاہری کے بغیر براہِ راست ، کسی آلے کے بغیر حاصل ہو، طبی آلات سے ڈاکٹروں کو حاصل ہونے والا علم نہ یقینی ہوتا ہے اور نہ ہی بلاواسطہ؛ بلکہ وہ محض ظنی ہے اور آلات کے واسطے سے حاصل ہوتا ہے؛ لہٰذا الٹرا سونو گرافی کے ذریعے حاصل ہونے والے اس ظنی علم سے قرآنی آیت پر کوئی اعتراض وارد نہ ہوگا۔
(ج) ۔۔۔ڈاکٹر صاحب آیتِ کریمہ:یاایھا النبی اذاجآئک المؤمنٰت یبایعنک علیٰ ان لا یشرکن باللہ شیئاً. [الممتحنہ:۱۲]کی تفسیر میں کہتے ہیں:
’’یہاں لفظ’’بیعت‘‘ استعمال ہوا ہے اور بیعت کے لفظ میں ہمارے آج کل کے الیکشن کا مفہوم بھی شامل ہے؛ کیوں کہ حضورﷺ اللہ کے رسول بھی تھے اور سربراہ مملکت بھی تھے اور بیعت سے مراد انہیں سربراہ حکومت تسلیم کرنا تھا، اسلام نے اسی دور میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق بھی تفویض کردیا تھا۔‘‘
[اسلام میں خواتین کے حقوق:۱۵۰ از ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب]
یہاں بھی ڈاکٹر صاحب آیت کی غلط تشریح کرتے ہوئے، اس سے عورت کے ووٹ دینے کا حق ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ عورتوں کا حضورﷺ کی خدمت میں آکر بیعت کرنا، موجودہ دور کے جمہوریت کے طرزِ انتخاب کی ہی قدیم شکل ہے، جب کہ جمہوریت کی حقیقت سے جو لوگ واقف ہیں وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ تشریح بالکل واقع کے خلاف ہے اور تفسیر قرآنی میں اپنی عقل کا بیجا استعمال ہے؛ اس لیے کہ موجودہ جمہوریت کے مطابق سب کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ سربراہ چننے کے لیے اپنی رائے دیں اگر کسی شخص پر کثرت و اتفاقِ رائے نہ ہو تو وہ سربراہ نہ بن سکے گا، اگر حضورﷺ کا بیعت کرنا درحقیقت ووٹ لینا تھا، تو کیا ان صحابیات کو اختیار تھا کہ حضورﷺ کی سربراہی تسلیم کرنے سے انکار کردیں؟
(د)۔۔۔ سورۂ مریم کی آیت: یااخت ہارون ماکان ابوک امرا سوءٍ وما کانت امک بغیا. [مریم:۲۸]پرناسمجھی سے کیا جانے والا معروف اشکال -حضرت مریم علیہا السلام، حضرت ہارون کی بہن نہیں تھیں او ردونوں کے زمانے میں تقریباً ایک ہزار سال کا فاصلہ ہے-کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’عیسائی مشنری یہ کہتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کو یسوع مسیح کی والدہ(Marry) مریم اور ہارون کی بہن مریم میں فرق کا پتہ نہیں تھا، حالاں کہ عربی میں ’’اخت‘‘ کے معنی اولاد بھی ہیں؛ اس لیے لوگوں نے مریم سے کہا کہ اے ہارون کی اولاد اور اصل اس سے مراد حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد ہی ہے۔‘‘
[اسلام پر چالیس اعتراضات، از:ڈاکٹر ذاکرنائیک]
ڈاکٹر صاحب کی، احادیث اور لغت سے نادانی اور جہالت پر مبنی اس تحقیق پر تبصرے کے طور پر مسلم شریف کی حدیث ہی کافی ہے، صحیح مسلم میں ہے:عن المغیرۃ بن شعبۃ قال: لما قدمت نجران سألونی، فقالوا انکم تقرأون یا اخت ہارون و موسی قبل عیسی بکذا وکذا، فلما قدمت علیٰ رسول ﷺ سألتہ عن ذلک فقال: انھم کان یسمون بانبیاءھم والصالحین قبلھم۔[مسلم:۶/۱۷۱،دارالجیل بیروت، رقم:۵۷۲۱] یعنی نبی اکرمﷺ نے اس آیت کی وضاحت آج سے چودہ سو سال پہلے ہی کردی تھی، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم، حضرت موسی کے بھائی حضرت ہارون کی بہن نہ تھیں؛ بلکہ حضرت عیسیٰ کی والدہ کے بھائی کا نام بھی ہارون تھا، اور یہ
ڈاکٹر صاحب نے یہاں سائنسی تحقیق سے مرعوب ہو کر، اس سے پیدا ہونے والے سرسری اعتراض سے بچنے کے لیے ، قرآن کی دوسری آیت اور صحابہ و تابعین سے منقول تفسیر کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، ایک معروف معنی کا انکار کردیا اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید اور ان کی تغلیط کرڈالی۔ ڈاکٹر صاحب نے جو معنی بیان کیا ہے’ما‘ موصولہ کے عموم میں آسکتا ہے اور بہت سے مفسرین نے ایک احتمال کے طور پر، پہلے معنی کے ضمن میں اس کا بھی ذکر کیا ہے؛ لیکن دوسرے معنی کا انکار کردینا قطعاً صحیح نہیں؛ بلکہ ڈاکٹر صاحب کی قلت تدبر او رتفسیر میں صحابہ اور تابعین کے اقوال سے روگردانی کی واضح دلیل ہے؛ اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب نے جس معنی کی نفی کی ہے، اسی کی طرف سورۂ رعد کی آیت:اللہ یعلم ماتحمل کل انثی وما تغیض الارحام وما تزداد. [الرعد:۸] ’’یعنی اللہ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہے کہ جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے اور جو کچھ رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے‘‘ اشارہ کررہی ہے، نیز مشہور تابعی اور تفسیر کے امام قتادہؒ سے بھی یہی معنی مروی ہے، چنانچہ حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں:’’فلا تعلم مافی الارحام اذکر ام انثی.‘‘ الخ یعنی رحم مادر میں نر ہے یا مادہ اس کا قطعی علم سوائے خدا کے کسی ااور کو نہیں، اسی طرح ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر[۶/۳۵۵] میں، علامہ نسفیؒ نے تفسیر مدارک[۳/۱۱۶] میں اور امام شوکانیؒ نے فتح القدیر[۵/۴۹۸]میں مذکورہ آیت کا یہی معنی بیان فرمایا ؛لیکن ڈاکٹر صاحب ان اکابر مفسرین کے بیان کردہ معنی کو غلط ٹھہراکر ، اپنے بیان کردہ معنی کو قطعی سمجھ کر اسی پر مصر ہیں۔
صحیح جواب:آیتِ کریمہ کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لیے علمِ غیب کو ثابت کرناہے اور علم غیب در حقیقت اس یقینی علم کو کہا جاتا ہے جو کسی سبب ظاہری کے بغیر براہِ راست ، کسی آلے کے بغیر حاصل ہو، طبی آلات سے ڈاکٹروں کو حاصل ہونے والا علم نہ یقینی ہوتا ہے اور نہ ہی بلاواسطہ؛ بلکہ وہ محض ظنی ہے اور آلات کے واسطے سے حاصل ہوتا ہے؛ لہٰذا الٹرا سونو گرافی کے ذریعے حاصل ہونے والے اس ظنی علم سے قرآنی آیت پر کوئی اعتراض وارد نہ ہوگا۔
(ج) ۔۔۔ڈاکٹر صاحب آیتِ کریمہ:یاایھا النبی اذاجآئک المؤمنٰت یبایعنک علیٰ ان لا یشرکن باللہ شیئاً. [الممتحنہ:۱۲]کی تفسیر میں کہتے ہیں:
’’یہاں لفظ’’بیعت‘‘ استعمال ہوا ہے اور بیعت کے لفظ میں ہمارے آج کل کے الیکشن کا مفہوم بھی شامل ہے؛ کیوں کہ حضورﷺ اللہ کے رسول بھی تھے اور سربراہ مملکت بھی تھے اور بیعت سے مراد انہیں سربراہ حکومت تسلیم کرنا تھا، اسلام نے اسی دور میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق بھی تفویض کردیا تھا۔‘‘
[اسلام میں خواتین کے حقوق:۱۵۰ از ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب]
یہاں بھی ڈاکٹر صاحب آیت کی غلط تشریح کرتے ہوئے، اس سے عورت کے ووٹ دینے کا حق ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ عورتوں کا حضورﷺ کی خدمت میں آکر بیعت کرنا، موجودہ دور کے جمہوریت کے طرزِ انتخاب کی ہی قدیم شکل ہے، جب کہ جمہوریت کی حقیقت سے جو لوگ واقف ہیں وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ تشریح بالکل واقع کے خلاف ہے اور تفسیر قرآنی میں اپنی عقل کا بیجا استعمال ہے؛ اس لیے کہ موجودہ جمہوریت کے مطابق سب کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ سربراہ چننے کے لیے اپنی رائے دیں اگر کسی شخص پر کثرت و اتفاقِ رائے نہ ہو تو وہ سربراہ نہ بن سکے گا، اگر حضورﷺ کا بیعت کرنا درحقیقت ووٹ لینا تھا، تو کیا ان صحابیات کو اختیار تھا کہ حضورﷺ کی سربراہی تسلیم کرنے سے انکار کردیں؟
(د)۔۔۔ سورۂ مریم کی آیت: یااخت ہارون ماکان ابوک امرا سوءٍ وما کانت امک بغیا. [مریم:۲۸]پرناسمجھی سے کیا جانے والا معروف اشکال -حضرت مریم علیہا السلام، حضرت ہارون کی بہن نہیں تھیں او ردونوں کے زمانے میں تقریباً ایک ہزار سال کا فاصلہ ہے-کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’عیسائی مشنری یہ کہتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کو یسوع مسیح کی والدہ(Marry) مریم اور ہارون کی بہن مریم میں فرق کا پتہ نہیں تھا، حالاں کہ عربی میں ’’اخت‘‘ کے معنی اولاد بھی ہیں؛ اس لیے لوگوں نے مریم سے کہا کہ اے ہارون کی اولاد اور اصل اس سے مراد حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد ہی ہے۔‘‘
[اسلام پر چالیس اعتراضات، از:ڈاکٹر ذاکرنائیک]
ڈاکٹر صاحب کی، احادیث اور لغت سے نادانی اور جہالت پر مبنی اس تحقیق پر تبصرے کے طور پر مسلم شریف کی حدیث ہی کافی ہے، صحیح مسلم میں ہے:عن المغیرۃ بن شعبۃ قال: لما قدمت نجران سألونی، فقالوا انکم تقرأون یا اخت ہارون و موسی قبل عیسی بکذا وکذا، فلما قدمت علیٰ رسول ﷺ سألتہ عن ذلک فقال: انھم کان یسمون بانبیاءھم والصالحین قبلھم۔[مسلم:۶/۱۷۱،دارالجیل بیروت، رقم:۵۷۲۱] یعنی نبی اکرمﷺ نے اس آیت کی وضاحت آج سے چودہ سو سال پہلے ہی کردی تھی، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم، حضرت موسی کے بھائی حضرت ہارون کی بہن نہ تھیں؛ بلکہ حضرت عیسیٰ کی والدہ کے بھائی کا نام بھی ہارون تھا، اور یہ