لوگ اپنے انبیاء اور گزشتہ برگزیدہ شخصیات کے ناموں پر اپنا نام رکھا کرتے تھے۔ اس سے پتہ چلا کہ نہ یہ کوئی نیا اعتراض ہے اور نہ ہی اپنی جانب سے جواب گھڑنے کی کوئی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تفسیر سے متعلق احادیث سے بے خبری کس قدر ہے کہ ذخیرۂ احادیث و تفسیر سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کے بجائے من گھڑت تاویل کررہے ہیں۔
(ھ)۔۔۔ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب آیتِ کریمہ:والارض بعد ذلک دحاھا. [النازعات: ۳۰]کے متعلق کہتے ہیں:
’’یہاں انڈے کے لئے استعمال کیا جانے والا لفظ’’دحٰھا‘‘ ہے، جس کا مطلب شتر مرغ کا انڈا، شتر مرغ کا انڈا زمین کی شکل سے مماثلت رکھتا ہے؛ لہٰذا قرآنِ کریم مکمل درستگی سے زمین کی شکل کی وضاحت کرتا ہے، حالاں کہ اس وقت جب قرآن اتارا گیا یہ خیال کیا جاتا تھا کہ زمین چپٹی(Flat) ہے‘‘۔ [خطبات ذاکر نائیک، قرآن اور جدید سائنس:۷۴۔۷۳]
یہاں پر ڈاکٹرصاحب سائنسی نظریہ سے مرعوب ہونے، نیز قرآنِ کریم کے موضوع(جو کہ توحید و رسالت ہے اور باقی طبیعیات وغیرہ کی باتیں ضمناً ہیں) کو نہ سمجھنے کی وجہ سے، زمین کی ہیئت کی تحقیق کرنے میں، آیت کریمہ سے غلط استدلال کرتے ہوئے آیت کی من مانی تشریح کررہے ہیں؛ اس لیے کہ ’دحو‘ کا لفظ و مادہ عربی زبان میں پھیلانے اور پھلاؤ کامفہوم رکھتا ہے، اسی کے مطابق ’دحٰھا‘ کی تفسیر و ترجمہ زمین کو پھیلانے سے، اور اس میں موجود اشیاء کے پیدا کرنے سے کیا گیا ہے(ملا حظہ ہو تفسیر ابن کثیر) یہ لفظ و مادہ انڈے کے معنی میں نہیں آتا۔
(۳)۔۔۔احادیث نبویہ سے ناواقفیت:
ذخیرہ احادیث سے ناواقفیت کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے بہت سی جگہوں پر صحیح احادیث کے خلاف مسائل بتلائے، نیز کتنے ہی مقامات پر کسی مسئلے پر متعدد احادیث ہونے کے باوجود یہ کہہ ڈالا کہ اس باب میں کوئی دلیل نہیں، ذیل میں ڈاکٹر صاحب کی احادیث سے جہالت یا دانستہ چشم پوشی کی چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:
(الف)۔۔۔ عورتوں کے لیے حالتِ حیض میں قرآن پڑھنے کا جواز
ایک پروگرام ’’گفتگو‘‘ میں عورت کے خاص ایام کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں:
’’قرآن و حدیث میں نماز کی رخصت ہے؛ لیکن کسی حدیث میں نہیں کہ وہ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔‘‘
حالاں کہ ترمذی شریف میں صریح حدیث ہے:’’لاتقرأ الحائض ولاالجنب شیأ من القرآن‘‘ یعنی جنبی اور حائضہ قرآن نہ پڑھیں۔۔۔۔آپ غور کیجیے کہ ڈاکٹر صاحب نے صحیح و صریح حدیث کے موجود ہونے کے باوجود دعویٰ ہمہ دانی کرتے ہوئے اس کا انکار کردیا۔
(ب)۔۔۔ خون سے وضو ٹوٹنے پر، احناف کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
’’بعض علمائے کرام خصوصاً فقہِ حنفی سے متعلق علمائے کرام کے خیال میں خون بہنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے، نماز کے دوران خون بہہ جانے کی صورت میں کس کو کیا کرناچاہیے، اس سوال کے جواب میں ان کا فتویٰ (احناف کا فتویٰ) بہت طویل ہے تاہم ان کے اس نقطۂ نظر کی تائید میں بہ ظاہرکوئی ثبوت نہیں ہے‘‘۔ [حقیقت ذاکر نائیک:۲۱۴،م:مکتبہ دیوبند]
یہاں پر ڈاکٹر صاحب نے فقہِ حنفی سے متعلق علماء پر الزام لگا ڈالا کہ وہ بلا ثبوت وضو ٹوٹنے کی بات کہتے ہیں، حالاں کہ خون سے وضو ٹوٹنے کے سلسلے میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں،نیز صحابۂ کرام کا تعامل بھی اس پر رہاہے،ذیل میں چندروایتیں ملاحظہ فرمائیں:
(۱)۔۔۔اخرج البخاری عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت: جائت فاطمۃ بنت ابی حبیش الی النبیﷺ فقالت: یارسول اللہ انی امرأۃ استحاض فلا اطہر، افادع الصلاۃ؟ قال:لا، انما ذلک عرق ولیست بالحیضۃ، فاذا اقبلت الحیضۃ فدعی الصلاۃ واذا ادبرت فاغسلی عنک الدم قال ہشام: قال ابی ثم توضئی لکل صلاۃ حتی یجئ ذلک الوقت۔
(۲)۔۔۔اذارعف احدکم فی صلاتہ فلینصرف فلیغسل عنہ الدم ثم لیعد وضوء ہ ویستقبل صلاتہ [اخرجہ الدارقطنی] یعنی دورانِ نماز اگر کسی کی نکسیر پھوٹ جائے تواسے چاہیے کہ خون کو دھولے اور وضودہرائے۔
(۳)۔۔۔عن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ :الوضوء من کل دم سائل۔ اخرجہ ابن عدی فی الکامل. [نصب الرایۃ للامام زیلعی:۱\۳۷] یعنی خون بہنے سے وضو لازم ہوجاتا ہے۔
یہ اور ان کے علاوہ بہت سی روایات کے باوجود، ڈاکٹر صاحب نے، اپنی ناواقفیت کا اظہار نہ کرکے مجتہدانہ دعویٰ کردیا کہ بہ ظاہر خون سے وضو ٹوٹنے پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔
(ج) ۔۔۔مردو عورت کی نماز میں فرق کرنا جائز نہیں۔
ایک دوسری جگہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
’’کہیں بھی ایک صحیح و مستند حدیث نہیں ملتی جس میں عورت کے لیے مرد سے علیحدہ طریقے کے مطابق نماز اداکرنے کا حکم ہو، اس کے بجائے صحیح بخاری کی روایت ہے، حضرت ام درداء روایت کرتی ہیں کہ التحیات میں عورتو ں کو مردوں کی طرح بیٹھنے کا حکم ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی تفسیر سے متعلق احادیث سے بے خبری کس قدر ہے کہ ذخیرۂ احادیث و تفسیر سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کے بجائے من گھڑت تاویل کررہے ہیں۔
(ھ)۔۔۔ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب آیتِ کریمہ:والارض بعد ذلک دحاھا. [النازعات: ۳۰]کے متعلق کہتے ہیں:
’’یہاں انڈے کے لئے استعمال کیا جانے والا لفظ’’دحٰھا‘‘ ہے، جس کا مطلب شتر مرغ کا انڈا، شتر مرغ کا انڈا زمین کی شکل سے مماثلت رکھتا ہے؛ لہٰذا قرآنِ کریم مکمل درستگی سے زمین کی شکل کی وضاحت کرتا ہے، حالاں کہ اس وقت جب قرآن اتارا گیا یہ خیال کیا جاتا تھا کہ زمین چپٹی(Flat) ہے‘‘۔ [خطبات ذاکر نائیک، قرآن اور جدید سائنس:۷۴۔۷۳]
یہاں پر ڈاکٹرصاحب سائنسی نظریہ سے مرعوب ہونے، نیز قرآنِ کریم کے موضوع(جو کہ توحید و رسالت ہے اور باقی طبیعیات وغیرہ کی باتیں ضمناً ہیں) کو نہ سمجھنے کی وجہ سے، زمین کی ہیئت کی تحقیق کرنے میں، آیت کریمہ سے غلط استدلال کرتے ہوئے آیت کی من مانی تشریح کررہے ہیں؛ اس لیے کہ ’دحو‘ کا لفظ و مادہ عربی زبان میں پھیلانے اور پھلاؤ کامفہوم رکھتا ہے، اسی کے مطابق ’دحٰھا‘ کی تفسیر و ترجمہ زمین کو پھیلانے سے، اور اس میں موجود اشیاء کے پیدا کرنے سے کیا گیا ہے(ملا حظہ ہو تفسیر ابن کثیر) یہ لفظ و مادہ انڈے کے معنی میں نہیں آتا۔
(۳)۔۔۔احادیث نبویہ سے ناواقفیت:
ذخیرہ احادیث سے ناواقفیت کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے بہت سی جگہوں پر صحیح احادیث کے خلاف مسائل بتلائے، نیز کتنے ہی مقامات پر کسی مسئلے پر متعدد احادیث ہونے کے باوجود یہ کہہ ڈالا کہ اس باب میں کوئی دلیل نہیں، ذیل میں ڈاکٹر صاحب کی احادیث سے جہالت یا دانستہ چشم پوشی کی چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:
(الف)۔۔۔ عورتوں کے لیے حالتِ حیض میں قرآن پڑھنے کا جواز
ایک پروگرام ’’گفتگو‘‘ میں عورت کے خاص ایام کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں:
’’قرآن و حدیث میں نماز کی رخصت ہے؛ لیکن کسی حدیث میں نہیں کہ وہ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔‘‘
حالاں کہ ترمذی شریف میں صریح حدیث ہے:’’لاتقرأ الحائض ولاالجنب شیأ من القرآن‘‘ یعنی جنبی اور حائضہ قرآن نہ پڑھیں۔۔۔۔آپ غور کیجیے کہ ڈاکٹر صاحب نے صحیح و صریح حدیث کے موجود ہونے کے باوجود دعویٰ ہمہ دانی کرتے ہوئے اس کا انکار کردیا۔
(ب)۔۔۔ خون سے وضو ٹوٹنے پر، احناف کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
’’بعض علمائے کرام خصوصاً فقہِ حنفی سے متعلق علمائے کرام کے خیال میں خون بہنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے، نماز کے دوران خون بہہ جانے کی صورت میں کس کو کیا کرناچاہیے، اس سوال کے جواب میں ان کا فتویٰ (احناف کا فتویٰ) بہت طویل ہے تاہم ان کے اس نقطۂ نظر کی تائید میں بہ ظاہرکوئی ثبوت نہیں ہے‘‘۔ [حقیقت ذاکر نائیک:۲۱۴،م:مکتبہ دیوبند]
یہاں پر ڈاکٹر صاحب نے فقہِ حنفی سے متعلق علماء پر الزام لگا ڈالا کہ وہ بلا ثبوت وضو ٹوٹنے کی بات کہتے ہیں، حالاں کہ خون سے وضو ٹوٹنے کے سلسلے میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں،نیز صحابۂ کرام کا تعامل بھی اس پر رہاہے،ذیل میں چندروایتیں ملاحظہ فرمائیں:
(۱)۔۔۔اخرج البخاری عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت: جائت فاطمۃ بنت ابی حبیش الی النبیﷺ فقالت: یارسول اللہ انی امرأۃ استحاض فلا اطہر، افادع الصلاۃ؟ قال:لا، انما ذلک عرق ولیست بالحیضۃ، فاذا اقبلت الحیضۃ فدعی الصلاۃ واذا ادبرت فاغسلی عنک الدم قال ہشام: قال ابی ثم توضئی لکل صلاۃ حتی یجئ ذلک الوقت۔
(۲)۔۔۔اذارعف احدکم فی صلاتہ فلینصرف فلیغسل عنہ الدم ثم لیعد وضوء ہ ویستقبل صلاتہ [اخرجہ الدارقطنی] یعنی دورانِ نماز اگر کسی کی نکسیر پھوٹ جائے تواسے چاہیے کہ خون کو دھولے اور وضودہرائے۔
(۳)۔۔۔عن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ :الوضوء من کل دم سائل۔ اخرجہ ابن عدی فی الکامل. [نصب الرایۃ للامام زیلعی:۱\۳۷] یعنی خون بہنے سے وضو لازم ہوجاتا ہے۔
یہ اور ان کے علاوہ بہت سی روایات کے باوجود، ڈاکٹر صاحب نے، اپنی ناواقفیت کا اظہار نہ کرکے مجتہدانہ دعویٰ کردیا کہ بہ ظاہر خون سے وضو ٹوٹنے پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔
(ج) ۔۔۔مردو عورت کی نماز میں فرق کرنا جائز نہیں۔
ایک دوسری جگہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
’’کہیں بھی ایک صحیح و مستند حدیث نہیں ملتی جس میں عورت کے لیے مرد سے علیحدہ طریقے کے مطابق نماز اداکرنے کا حکم ہو، اس کے بجائے صحیح بخاری کی روایت ہے، حضرت ام درداء روایت کرتی ہیں کہ التحیات میں عورتو ں کو مردوں کی طرح بیٹھنے کا حکم ہے‘‘۔