گلستانِ علم و فن


Kanal geosi va tili: ko‘rsatilmagan, ko‘rsatilmagan
Toifa: ko‘rsatilmagan


اردو سے ذوق رکھنے والوں کے لئے انمول تحفہ...
عمدہ اشعار، غزلیں، لطیفے، اقوال زریں، ادبی کہانیاں، تاریخی سہ پارے اور بھی بہت کچھ دستیاب ہے یہاں پر...

Связанные каналы

Kanal geosi va tili
ko‘rsatilmagan, ko‘rsatilmagan
Toifa
ko‘rsatilmagan
Statistika
Postlar filtri


وہ آئینہ ہو یا ہو پھول تارہ ہو کہ پیمانہ

کہیں جو کچھ بھی ٹوٹا میں یہی سمجھا مرا دل ہے

سیماب اکبرآبادی

گلستان علم و فن


گلستانِ علم و فن dan repost
چینل کے نام کے بغیر کسی بھی پوسٹ کو عام کرنے کی اجازت نہیں ہے
اور جو یہاں سے چینل کے نام کے بغیر پوسٹ کرتا ہے گویا وہ چینل والوں سے خیانت ہے

@GulistanElilmOfan


ہے حصول آرزو کا راز ترک آرزو

میں نے دنیا چھوڑ دی تو مل گئی دنیا مجھے

موضوع : آرزو

گلستان علم و فن


تیرے جلووں نے مجھے گھیر لیا ہے اے دوست

اب تو تنہائی کے لمحے بھی حسیں لگتے ہیں

موضوع : تنہائی

گلستان علم و فن


پریشاں ہونے والوں کو سکوں کچھ مل بھی جاتا ہے

پریشاں کرنے والوں کی پریشانی نہیں جاتی



سیماب اکبرآبادی

گلستان علم و فن


مری خاموشیوں پر دنیا مجھ کو طعن دیتی ہے

یہ کیا جانے کہ چپ رہ کر بھی کی جاتی ہیں تقریریں

موضوع : خاموشی

گلستان علم و فن


یادیں۔۔ 156

روشن دل عارف سے فزوں ہے بدن ان کا
رنگیں ہے طبیعت کی طرح پیرہن ان کا

محروم ہی رہ جاتی ہے آغوش تمنا
شرم آ کے چرا لیتی ہے سارا بدن ان کا

جن لوگوں نے دل میں ترے گھر اپنا کیا ہے
باہر ہے دو عالم سے مری جاں وطن ان کا

ہر بات میں وہ چال کیا کرتے ہیں مجھ سے
الفت نہ نبھے گی جو یہی ہے چلن ان کا

عارض سے غرض ہم کو عنادل کو ہے گل سے
ہے کوچۂ معشوق ہمارا چمن ان کا

ہے صاف نگاہوں سے عیاں جوش جوانی
آنکھوں سے سنبھلتا نہیں مستانہ پن ان کا

یہ شرم کے معنی ہیں حیا کہتے ہیں اس کو
آغوش تصور میں نہ آیا بدن ان کا

غیروں ہی پہ چلتا ہے جو اب ناز کا خنجر
کیوں بیچ میں لایا تھا مجھے بانکپن ان کا

غیروں نے کبھی پاک نظر سے نہیں دیکھا
وہ اس کو نہ سمجھیں تو یہ ہے حسن ظن ان کا

اس زلف و رخ و لب پہ انہیں کیوں نہ ہو نخوت
تاتار ہے ان کا حلب ان کا یمن ان کا

اللہ رے فریب نظر چشم فسوں ساز
بندہ ہے ہر اک شیخ ہر اک برہمن ان کا

آیا جو نظر حسن خداداد کا جلوہ
بت بن گیا منہ دیکھ کے ہر برہمن ان کا

مرقد میں اتارا ہمیں تیوری کو چڑھا کر
ہم مر بھی گئے پر نہ چھٹا بانکپن ان کا

گزری ہوئی باتیں نہ مجھے یاد دلاؤ
اب ذکر ہی جانے دو تم اے جان من ان کا

دلچسپ ہی آفت ہے قیامت ہے غضب ہے
بات ان کی ادا ان کی قد ان کا چلن ان کا

اکبر الہ آبادی

گلستان علم و فن




یادیں۔۔۔ 155
یہ رونقیں یہ لوگ یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا

مرنے سے پیشتر مری آواز مت چرا
میں اپنی جائداد ادھر چھوڑ جاؤں گا

قاتل مرا نشان مٹانے پہ ہے بضد
میں سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا

تو نے مجھے چراغ سمجھ کر بجھا دیا
لیکن ترے لیے میں سحر چھوڑ جاؤں گا

آئندہ نسل مجھ کو پڑھے گی غزل غزل
میں حرف حرف اپنا ہنر چھوڑ جاؤں گا

تم اپنے آبلوں کو بچاتے ہو کس لیے؟
میں تو سفر میں رخت سفر چھوڑ جاؤں گا

میں اپنے ڈوبنے کی علامت کے طور پر
دریا میں ایک آدھ بھنور چھوڑ جاؤں گا

لشکر کریں گے میری دلیری پہ تبصرے
مر کر بھی زندگی کی خبر چھوڑ جاؤں گا

محسن میں اس کے زخم خریدوں گا ایک دن
اور اس کے پاس لعل و گہر چھوڑ جاؤں گا

محسن نقوی

گلستان علم و فن




یادیں۔۔۔ 154



اب بزمِ سخن صحبتِ لب سوختگاں ہے
اب حلقۂ مے طائفۂ بے طلباں ہے

*گھر رہیے تو ویرانیِ دل کھانے کو آوے*
*رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے*

پیوندِ رہِ کوچۂ زر چشمِ غزالاں
پابوسِ ہوس افسرِ شمشاد قداں ہے

یاں اہلِ جنوں یک بہ دگر دست و گریباں
واں جیشِ ہوس تیغ بکف درپئے جاں ہے

اب صاحبِ انصاف ہے خود طالبِ انصاف
مُہر اُس کی ہے میزان بہ دستِ دگراں ہے

ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے.!

✍...فیض احمد فیض

گلستان علم و فن




یادیں۔۔۔ 153


بہتی ہوئی آنکھوں کی روانی میں مرے ہیں،
کچھ خواب میرے عین جوانی میں مرے ہیں۔

روتا ہوں میں ان لفظوں کی قبروں پہ کئی بار
جو لفظ میری شعلہ بیانی میں مرے ہیں

کچھ تجھ سے یہ دوری بھی مجھے مار گئی ہے
کچھ جذبے میرے نقل مکانی میں مرے ہیں

اس عشق نے آخر ہمیں برباد کیا ہے
ہم لوگ اسی کھولتے پانی میں مرے ہیں

کچھ حد سے زیادہ تھا ہمیں شوق محبت
اور ہم ہی محبت کی گرانی میں مرے ہیں

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
ہم لوگ محبت کی کہانی ہیں مرے ہیں

اعجاز توکل

گلستان علم و فن




یادیں۔۔ 152

پتھر
-----------------------------------------
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں
میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیب سفید
اس کے مرمر میں سیہ خون جھلک جاتا ہے
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشۂ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
جتنی اقدار ہیں اس دور کی سب پتھر ہیں
سبزہ و گل بھی ہوا اور فضا بھی پتھر
میرا الہام ترا ذہن رسا بھی پتھر
اس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں ترے میری زباں پتھر ہے
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار

احمد ندیم قاسمی

گلستان علم و فن




یادیں ۔۔ 151
پہلا سا حال، پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی
شہروں میں ایک شہر مرے رَت جگوں کا شہر
کوچے تو کیا دِلوں ہی میں وسعت نہیں رہی
لوگوں میں میرے لوگ وہ دل داریوں کے لوگ
بچھڑے تو دُور دُور رقابت نہیں رہی
شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام
اب نیم وَا دریچوں کی حسرت نہیں رہی
راتوں میں ایک رات مِرے گھر کی چاند رات
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی
راہوں میں ایک راہ وہ گھر لَوٹنے کی راہ
ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی
یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد
وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی
ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام
اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی
خوابوں میں ایک خواب تری ہمرَہی کا خواب
اب تجھ کو دیکھنے کی بھی صورت نہیں رہی
رنگوں میں ایک رنگ تری سادگی کا رنگ
ایسی ہَوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی
باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات
اور اب یہ اِتّفاق کہ چاہت نہیں رہی
یاروں میں ایک یار وہ عیّاریوں کا یار
مِلنا نہیں رہا تو شکایت نہیں رہی
فصلوں میں ایک فصل وہ جاندادگی کی فصل
بادل کو یاں زمین سے رغبت نہیں رہی
زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم
اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی
سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیرؔ
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی

(نصیر ترابی)

گلستان علم و فن




یادیں۔۔۔ 150


نہیں ہے تجھ کو ضرورت تو جا نہیں دوں گا
میں اب کی بار تجھے مشورہ نہیں دوں گا

وہ رو رہا ہے کسی اور کیلیے، سو اسے
گلے لگاؤں گا پر حوصلہ نہیں دوں گا

مرے رقیب تڑپتے رہیں گے زندگی بھر
تجھے بچھڑنے کی کوئی وجہ نہیں دوں گا

کہیں یہ ریت تجھے مجھ سے بدگماں نہ کرے
تجھے بناؤں گا پر آئینہ نہیں دوں گا

میں ایسے پھیل کے بیٹھوں گا تیری محفل میں
ترے قریب کسی کو جگہ نہیں دوں گا

علی ارتضی

گلستان علم و فن



20 ta oxirgi post ko‘rsatilgan.

254

obunachilar
Kanal statistikasi