ریاست مرے گی یا نہیں؟
عبدالوحید مراد
لاپتہ افراد کا مسئلہ پاکستانی خفیہ اداروں کی انسانیت دشمنی سمجھنے کے لیے بہت کافی ہے۔ عبدالوحید مراد ایک نجی ٹی وی میں رپورٹر ہیں اور اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں ہونے والے مختلف سیاسی،سماجی اورفوجداری مقدمات کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔موصوف کے دیگرافکاروخیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔یہ سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمات سے متعلق ہونے والی سماعتوں میں سے چند ایک کا احوال سناتے ہیں۔ججوں کے ڈائیلاگ اورلاپتہ افراد کے لواحقین کی حالت زار اِس طاغوتی نظام کے سامنے ’’عدل‘‘کی بے بسی ظاہرکررہے ہیں۔اور’’عدل‘‘بے بس کیوں نہ ہو کہ یہ بھی تو اسی طاغوتی نظام ہی کا ایک اہم ستون ہے۔اس نطامِ بد کا دوسرا اہم ستون’پارلیمان‘ہے۔اُس کے احوال بھی قوم کے سامنے ہیں کہ سینٹ کا چیئرمین بھی فوج اور خفیہ اداروں کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہوئے جھجکتا اورجان کی امان پاکرکہتا ہوا پایا جاتا ہے کہ ’’مجھے بھی لاپتہ کردیں گے‘‘۔اس نظام کے سارے ہی ’’ستون‘‘اپنی ہی ’’چھت‘‘کے وزن سے کانپ رہے ہیں۔سویہ’’چھت ‘‘مزید کتنی دیرظلم ،گھٹن اورکفر کا بوجھ اپنے ’خاکی کندھوں‘پر اٹھا سکتی ہے؟باذن اللہ بہت قریب ہے کہ جب یہ نظامِ بد اوراس کے محافظوں پشتی بانوں کی دراز رسی ‘اللہ پاک ایک ہی جھٹکے سے کھینچ ڈالیں گے،ان شاء اللہ۔[ادارہ]
لاپتہ افراد کا مقدمہ سننا، اور اسے رپورٹ کرنا بھی ایک مشکل کام ہے کیونکہ ججوں سمیت سب بے بس ہوتے ہیں,صرف لیکچر ہوتاہے یا ریمارکس دیے جاتے ہیں۔
جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تو عدالت کے روسٹرم پر آمنہ مسعود جنجوعہ اور وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام لاپتہ افراد کی جانب سے موجود تھے جب کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس ، پختون خوا، پنجاب کے سرکاری وکیل اور لاپتہ افراد کمیشن کے رجسٹرار بھی کھڑے تھے۔
عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کہ لاپتہ تاسف ملک سے حراستی مرکز میں اہل خانہ کی ملاقات کرانے کاحکم دیا تھا کیا ہوا؟۔سرکاری وکیل نے بتایاکہ ملاقات کرادی گئی ہے۔ تاسف ملک کے سسر نے عدالت کو بتایاکہ صر ف تین منٹ کی ملاقات کرائی گئی اور اس میں بھی چار گارڈزگنیں تانے کھڑے تھے، ہماری گفتگو بھی ٹیپ کی جارہی تھی، تاسف نے کہاکہ عدالت بلائے گی تو تب ہی کچھ بتا پاؤں گا۔وکیل کرنل انعام نے کہاکہ تین سال بعد تین منٹ کی ملاقات کرائی گئی۔
جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ یہ نازک معاملہ ہے، جب ہائیکورٹ میں تھا تب آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کی مرضی سے طے کیا گیا تھا کہ حراستی مراکز میں قیدیوں کی اہل خانہ سے ملاقات کے لیے طریقہ کارکیا ہوگا، احتیاطی تدابیر ضروری ہیں مگر ملاقات سہولت کے ساتھ کرائی جائے۔جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ ہم جاننا چاہیں گے کہ کس قانون کے تحت کس جرم میں زیرحراست ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے اس بارے میں رپورٹ بھی مانگی ہے۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ متعلقہ حکام سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر بھارتی جاسوس کو اہل خانہ سے ملاقات کے لیے سہولت فراہم کی جاسکتی ہے تو یہی سہولت اپنے شہریوں کے لیے کیوں فراہم نہیں کی جاسکتی؟وکیل کرنل انعام نے کہاکہ تاسف ملک کے کیس میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ایک میجر کا ٹرائل ہورہاہے اس کی پیش رفت رپورٹ طلب کی جانی چاہیے۔
عدالت نے دوسرے لاپتہ عادل خان کے مقدمے میں سرکاری وکیل سے پیش رفت کا دریافت کیا تو بتایا گیاکہ چودہ نومبر دوہزار آٹھ کو پشاور ہائیکورٹ نے حکم دیا تھا جس پر انکوائری میں معلوم ہواکہ صرف لاپتہ ہے اور کسی پر کوئی الزام عائد نہیں کیاگیا، تمام ایجنسیوں کو دوبارہ لکھاگیاہے جواب کا انتظار ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اب ایسی صورتحال میں کیا کریں؟آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ یہ ان سرکاری وکیلوں کا معمول ہے،لاپتہ افراد کمیشن بھی ایسے ہی کام کررہاہے،سات سال ہوگئے عادل خان کے مقدمے کو بھی۔ پورے ملک میں لاپتہ افراد کے ورثاقطاروں میں لگے ہوئے ہیں، کمیشن میں سات ماہ بھی ایک کیس کی باری آتی ہے،انصاف دینے کاکمیشن کا یہ تیس سالہ منصوبہ ہے۔لوگ اذیت کا شکار ہیں ان کے مسئلے حل کرنے کا یہ طریقہ نہیں۔
عدالت میں لاپتہ مدثراقبال کے مقدمے کا نمبر پکارا گیا تو جسٹس دوست محمد نے سرکاری وکیلوں سے پوچھاکہ جے آئی ٹی اور دیگر کی رپورٹس میں تضاد کیوں ہے؟ دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر پوچھا کیوں نہیں گیا کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ؟آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ اقوام متحدہ کے جبری لاپتہ کیے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مدثر اقبال کسی خفیہ ادارے کے سیل میں ہے۔سرکاری وکیل نے کہاکہ مدثر اقبال کے حوالے سے رپورٹ دی جاچکی ہے اور خفیہ ایجنسیاں اس کی موجودگی سے لاعلمی ظاہرکرچکی ہیں۔ جسٹس دوست نے کہاکہ عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ جوڈیشل ریکارڈ بن چکی ہے، کل کو اگر مدثر اقبال کا فوجی عدالت میں
عبدالوحید مراد
لاپتہ افراد کا مسئلہ پاکستانی خفیہ اداروں کی انسانیت دشمنی سمجھنے کے لیے بہت کافی ہے۔ عبدالوحید مراد ایک نجی ٹی وی میں رپورٹر ہیں اور اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں ہونے والے مختلف سیاسی،سماجی اورفوجداری مقدمات کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔موصوف کے دیگرافکاروخیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔یہ سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمات سے متعلق ہونے والی سماعتوں میں سے چند ایک کا احوال سناتے ہیں۔ججوں کے ڈائیلاگ اورلاپتہ افراد کے لواحقین کی حالت زار اِس طاغوتی نظام کے سامنے ’’عدل‘‘کی بے بسی ظاہرکررہے ہیں۔اور’’عدل‘‘بے بس کیوں نہ ہو کہ یہ بھی تو اسی طاغوتی نظام ہی کا ایک اہم ستون ہے۔اس نطامِ بد کا دوسرا اہم ستون’پارلیمان‘ہے۔اُس کے احوال بھی قوم کے سامنے ہیں کہ سینٹ کا چیئرمین بھی فوج اور خفیہ اداروں کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہوئے جھجکتا اورجان کی امان پاکرکہتا ہوا پایا جاتا ہے کہ ’’مجھے بھی لاپتہ کردیں گے‘‘۔اس نظام کے سارے ہی ’’ستون‘‘اپنی ہی ’’چھت‘‘کے وزن سے کانپ رہے ہیں۔سویہ’’چھت ‘‘مزید کتنی دیرظلم ،گھٹن اورکفر کا بوجھ اپنے ’خاکی کندھوں‘پر اٹھا سکتی ہے؟باذن اللہ بہت قریب ہے کہ جب یہ نظامِ بد اوراس کے محافظوں پشتی بانوں کی دراز رسی ‘اللہ پاک ایک ہی جھٹکے سے کھینچ ڈالیں گے،ان شاء اللہ۔[ادارہ]
لاپتہ افراد کا مقدمہ سننا، اور اسے رپورٹ کرنا بھی ایک مشکل کام ہے کیونکہ ججوں سمیت سب بے بس ہوتے ہیں,صرف لیکچر ہوتاہے یا ریمارکس دیے جاتے ہیں۔
جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تو عدالت کے روسٹرم پر آمنہ مسعود جنجوعہ اور وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام لاپتہ افراد کی جانب سے موجود تھے جب کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس ، پختون خوا، پنجاب کے سرکاری وکیل اور لاپتہ افراد کمیشن کے رجسٹرار بھی کھڑے تھے۔
عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کہ لاپتہ تاسف ملک سے حراستی مرکز میں اہل خانہ کی ملاقات کرانے کاحکم دیا تھا کیا ہوا؟۔سرکاری وکیل نے بتایاکہ ملاقات کرادی گئی ہے۔ تاسف ملک کے سسر نے عدالت کو بتایاکہ صر ف تین منٹ کی ملاقات کرائی گئی اور اس میں بھی چار گارڈزگنیں تانے کھڑے تھے، ہماری گفتگو بھی ٹیپ کی جارہی تھی، تاسف نے کہاکہ عدالت بلائے گی تو تب ہی کچھ بتا پاؤں گا۔وکیل کرنل انعام نے کہاکہ تین سال بعد تین منٹ کی ملاقات کرائی گئی۔
جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ یہ نازک معاملہ ہے، جب ہائیکورٹ میں تھا تب آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کی مرضی سے طے کیا گیا تھا کہ حراستی مراکز میں قیدیوں کی اہل خانہ سے ملاقات کے لیے طریقہ کارکیا ہوگا، احتیاطی تدابیر ضروری ہیں مگر ملاقات سہولت کے ساتھ کرائی جائے۔جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ ہم جاننا چاہیں گے کہ کس قانون کے تحت کس جرم میں زیرحراست ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے اس بارے میں رپورٹ بھی مانگی ہے۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ متعلقہ حکام سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر بھارتی جاسوس کو اہل خانہ سے ملاقات کے لیے سہولت فراہم کی جاسکتی ہے تو یہی سہولت اپنے شہریوں کے لیے کیوں فراہم نہیں کی جاسکتی؟وکیل کرنل انعام نے کہاکہ تاسف ملک کے کیس میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ایک میجر کا ٹرائل ہورہاہے اس کی پیش رفت رپورٹ طلب کی جانی چاہیے۔
عدالت نے دوسرے لاپتہ عادل خان کے مقدمے میں سرکاری وکیل سے پیش رفت کا دریافت کیا تو بتایا گیاکہ چودہ نومبر دوہزار آٹھ کو پشاور ہائیکورٹ نے حکم دیا تھا جس پر انکوائری میں معلوم ہواکہ صرف لاپتہ ہے اور کسی پر کوئی الزام عائد نہیں کیاگیا، تمام ایجنسیوں کو دوبارہ لکھاگیاہے جواب کا انتظار ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اب ایسی صورتحال میں کیا کریں؟آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ یہ ان سرکاری وکیلوں کا معمول ہے،لاپتہ افراد کمیشن بھی ایسے ہی کام کررہاہے،سات سال ہوگئے عادل خان کے مقدمے کو بھی۔ پورے ملک میں لاپتہ افراد کے ورثاقطاروں میں لگے ہوئے ہیں، کمیشن میں سات ماہ بھی ایک کیس کی باری آتی ہے،انصاف دینے کاکمیشن کا یہ تیس سالہ منصوبہ ہے۔لوگ اذیت کا شکار ہیں ان کے مسئلے حل کرنے کا یہ طریقہ نہیں۔
عدالت میں لاپتہ مدثراقبال کے مقدمے کا نمبر پکارا گیا تو جسٹس دوست محمد نے سرکاری وکیلوں سے پوچھاکہ جے آئی ٹی اور دیگر کی رپورٹس میں تضاد کیوں ہے؟ دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر پوچھا کیوں نہیں گیا کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ؟آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ اقوام متحدہ کے جبری لاپتہ کیے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مدثر اقبال کسی خفیہ ادارے کے سیل میں ہے۔سرکاری وکیل نے کہاکہ مدثر اقبال کے حوالے سے رپورٹ دی جاچکی ہے اور خفیہ ایجنسیاں اس کی موجودگی سے لاعلمی ظاہرکرچکی ہیں۔ جسٹس دوست نے کہاکہ عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ جوڈیشل ریکارڈ بن چکی ہے، کل کو اگر مدثر اقبال کا فوجی عدالت میں