ٹرائل کرکے سزا دی گئی توسپریم کورٹ کا ریکارڈ خلاف جائے گا اور بات کھل جائے گی کہ غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور عدالت سے جھوٹ بولاگیا۔جسٹس دوست محمد نے کہاکہ سوات میں آپریشن کے بعد اڑھائی تین ہزار افراد کو کسی دوسری جگہ حراست میں رکھا گیا، ہائیکورٹ نے کہاتھاکہ ان افراد کو چھوڑ دیں یا پولیس کے حوالے کردیں۔ وکیل کرنل انعام بولے کہ قوم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حراستی مراکزمیں کتنے افراد ہیں، کل بیالیس مراکز ہیں۔سرکاری وکیل ساجد الیاس نے فورا ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کرنل انعام کو بتایاکہ کل ایک ہزار چارسو گیارہ افراد حراستی مراکز میں ہیں اور اس کی رپورٹ دی جاچکی ہے۔
جسٹس اعجازافضل نے پوچھا کہ حراستی مراکز میں قید افراد کا ٹرائل کیوں نہیں کیا جاتا؟ سرکاری وکیل بولے کہ اخبار میں خبر آئی ہے کہ کچھ مقدمات فوجی عدالت میں ٹرائل کے لیے بھیجے گئے ہیں۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ وفاقی حکومت کا وکیل بھی اخبار کی خبروں سے بتارہاہے،عدالت کو رپورٹ میں بتاناچاہیے ۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ آئین کی سبزکتاب کا احترام ہی نہیں،اس کو نصاب میں بڑی کلاسوں کے لیے شامل کرنا چاہیے، اگرکسی نے جرم کیا ہے تو قانون کے مطابق سزا دیں،سالہا سال سے سوات اور قبائلی علاقوں میں لوگ حراست میں ہیں،آئین میں لکھا ہے کہ گرفتار شخص کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیاجائے گا، برسوں سے حراست میں رکھنا غیرآئینی اور غیر قانونی ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی کو غیرمعینہ عرصے کے لیے زیرحراست نہیں رکھا جاسکتا۔ وکیل کرنل انعام نے کہاکہ یہ تو عام شہری ہیں، گروپ کیپٹن کو سروس کے دوران ٹارچر کرکے مار دیا گیا ہے۔جسٹس دوست محمد نے کہاکہ بدقسمتی یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی ساکھ کو کھویا ہے، ایجنسی والے عدالت کے سامنے سچ نہیں بولتے،ہم بھی نہیں چاہتے کہ کسی مجرم کو معاشرے میں کھلا چھوڑدیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ثبوت ۔سرکاری وکیل ساجد الیاس بولے کہ ان میں سے کچھ افغانستان میں ہیں۔جسٹس دوست نے کہاکہ افغانستان کی بات رہنے دیں یہ بتائیں کہ آپ کے پاس معلومات کیاہیں اور ثبوت کہاں ہیں؟فراہم کردیں تو ہم معاملہ نمٹادیں گے۔سرکاری وکیل نے کہا کہ کمیشن نے وقت مانگا ہے چھ ہفتے میں معلومات دے دیں گے۔
عدالت میں سفید داڑھی والا ایک عمررسیدہ شخص کھڑا ہوا ، پشتو میں کچھ بولنے لگا تو آمنہ مسعود نے کہاکہ یہ لاپتہ خیرالرحمان کا والد ہے، آج ان کا مقدمہ نہیں لگا، گزشتہ سماعت پر کارروائی مکمل نہیں ہوئی تھی اس لیے یہ آج بھی آئے ہیں۔جسٹس اعجازافضل نے انگریزی میں کہاکہ (ہزویری پریزنس ان دا کورٹ از سپائن چلنگ فار اس) اس بزرگ کی عدالت میں موجودگی ہی ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔سرکاری وکیل نے کہاکہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی رپورٹ بھی دی تھی،آئی بی نے بھی کہا ہے کہ شدت پسندوں سے رابطے تھے۔آمنہ مسعود نے کہاکہ خیرالرحمان کو لے کر جانا والا پولیس ایس ایچ او ارشد آج تک قبل ازگرفتاری ضمانت پر ہے،عرصہ ہوگیا اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا مگر آج تک تفتیش نہیں ہوسکی کہ اس نے خیرالرحمان کو کس کے حوالے کیا؟اس دوران بزرگ شخص روسٹرم پر بولنے کی کوشش کرتارہا تو وکیل نے کندھے پر ہاتھ کر دلاسا دیا اور خاموش رہنے کے لیے کہا۔ بزرگ شخص نے روسٹرم کو چھوڑا، عدالت میں کرسیوں پر بیٹھے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے پاس گیا اور ایس ایچ او ارشد کے بارے میں پشتو میں پوچھتا رہا۔ (حالانکہ کیس پختون خوا کا ہے)۔ پویس والوں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو بزرگ شخص واپس روسٹرم پر آیا اور آمنہ مسعود جنجوعہ کو کچھ بتانے کی کوشش کرنے لگا۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہمیں یہ مقدمہ یاد ہے۔ عدالت میں معاوضہ کی بات کی گئی تو وکیل کرنل انعام نے کہاکہ یہ ریاست کے خلاف جرم ہے معاوضے کی بات کیسے کی جاسکتی ہے۔ آمنہ مسعود نے بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ ہمیں نہیں ملتی،پتہ ہی نہیں ہوتاکہ کیا لکھ کرلائے ہیں، رپورٹ فراہم کی جائے تاکہ متاثرین کی مدد کرتے ہوئے ان کو آگاہ کرسکوں۔ ( عدالت کے باہر خیرالرحمان کے بزرگ والد نے میرے پوچھنے پر پشتو میں بتایا کہ اس کے بیٹے کو حراست میں لینے والے ایس ایچ او ارشد نے گھر آکر بیس لاکھ دینے کی پیش کش کی تھی مگر میں نے انکار کردیا، میرے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں مگر اپنے بیٹے کا گوشت بیچ کرپوتوں کو نہیں کھلا سکتا)۔
سرکاری وکیل ساجد الیاس نے کہاکہ ہربار نئی رپورٹ ہوتی ہے، اگر یہ کیس مکمل ہو گیا تب بھی یہ عدالت آئیں گے۔آمنہ مسعود نے وکیل کے طنز کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ اگر سوسال لگیں گے تب بھی ان کو ہربار رپورٹ دینا ہوگی، اور جب تک آخری لاپتہ شخص کا معلوم نہیں ہوتا عدالت میں کھڑی رہوں گی۔جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں کو اصل حقائق نہ بتانے کے پیچھے چھپی منطق سمجھ نہیں آتی۔
جسٹس اعجازافضل نے پوچھا کہ حراستی مراکز میں قید افراد کا ٹرائل کیوں نہیں کیا جاتا؟ سرکاری وکیل بولے کہ اخبار میں خبر آئی ہے کہ کچھ مقدمات فوجی عدالت میں ٹرائل کے لیے بھیجے گئے ہیں۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ وفاقی حکومت کا وکیل بھی اخبار کی خبروں سے بتارہاہے،عدالت کو رپورٹ میں بتاناچاہیے ۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ آئین کی سبزکتاب کا احترام ہی نہیں،اس کو نصاب میں بڑی کلاسوں کے لیے شامل کرنا چاہیے، اگرکسی نے جرم کیا ہے تو قانون کے مطابق سزا دیں،سالہا سال سے سوات اور قبائلی علاقوں میں لوگ حراست میں ہیں،آئین میں لکھا ہے کہ گرفتار شخص کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیاجائے گا، برسوں سے حراست میں رکھنا غیرآئینی اور غیر قانونی ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی کو غیرمعینہ عرصے کے لیے زیرحراست نہیں رکھا جاسکتا۔ وکیل کرنل انعام نے کہاکہ یہ تو عام شہری ہیں، گروپ کیپٹن کو سروس کے دوران ٹارچر کرکے مار دیا گیا ہے۔جسٹس دوست محمد نے کہاکہ بدقسمتی یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی ساکھ کو کھویا ہے، ایجنسی والے عدالت کے سامنے سچ نہیں بولتے،ہم بھی نہیں چاہتے کہ کسی مجرم کو معاشرے میں کھلا چھوڑدیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ثبوت ۔سرکاری وکیل ساجد الیاس بولے کہ ان میں سے کچھ افغانستان میں ہیں۔جسٹس دوست نے کہاکہ افغانستان کی بات رہنے دیں یہ بتائیں کہ آپ کے پاس معلومات کیاہیں اور ثبوت کہاں ہیں؟فراہم کردیں تو ہم معاملہ نمٹادیں گے۔سرکاری وکیل نے کہا کہ کمیشن نے وقت مانگا ہے چھ ہفتے میں معلومات دے دیں گے۔
عدالت میں سفید داڑھی والا ایک عمررسیدہ شخص کھڑا ہوا ، پشتو میں کچھ بولنے لگا تو آمنہ مسعود نے کہاکہ یہ لاپتہ خیرالرحمان کا والد ہے، آج ان کا مقدمہ نہیں لگا، گزشتہ سماعت پر کارروائی مکمل نہیں ہوئی تھی اس لیے یہ آج بھی آئے ہیں۔جسٹس اعجازافضل نے انگریزی میں کہاکہ (ہزویری پریزنس ان دا کورٹ از سپائن چلنگ فار اس) اس بزرگ کی عدالت میں موجودگی ہی ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔سرکاری وکیل نے کہاکہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی رپورٹ بھی دی تھی،آئی بی نے بھی کہا ہے کہ شدت پسندوں سے رابطے تھے۔آمنہ مسعود نے کہاکہ خیرالرحمان کو لے کر جانا والا پولیس ایس ایچ او ارشد آج تک قبل ازگرفتاری ضمانت پر ہے،عرصہ ہوگیا اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا مگر آج تک تفتیش نہیں ہوسکی کہ اس نے خیرالرحمان کو کس کے حوالے کیا؟اس دوران بزرگ شخص روسٹرم پر بولنے کی کوشش کرتارہا تو وکیل نے کندھے پر ہاتھ کر دلاسا دیا اور خاموش رہنے کے لیے کہا۔ بزرگ شخص نے روسٹرم کو چھوڑا، عدالت میں کرسیوں پر بیٹھے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے پاس گیا اور ایس ایچ او ارشد کے بارے میں پشتو میں پوچھتا رہا۔ (حالانکہ کیس پختون خوا کا ہے)۔ پویس والوں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو بزرگ شخص واپس روسٹرم پر آیا اور آمنہ مسعود جنجوعہ کو کچھ بتانے کی کوشش کرنے لگا۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہمیں یہ مقدمہ یاد ہے۔ عدالت میں معاوضہ کی بات کی گئی تو وکیل کرنل انعام نے کہاکہ یہ ریاست کے خلاف جرم ہے معاوضے کی بات کیسے کی جاسکتی ہے۔ آمنہ مسعود نے بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ ہمیں نہیں ملتی،پتہ ہی نہیں ہوتاکہ کیا لکھ کرلائے ہیں، رپورٹ فراہم کی جائے تاکہ متاثرین کی مدد کرتے ہوئے ان کو آگاہ کرسکوں۔ ( عدالت کے باہر خیرالرحمان کے بزرگ والد نے میرے پوچھنے پر پشتو میں بتایا کہ اس کے بیٹے کو حراست میں لینے والے ایس ایچ او ارشد نے گھر آکر بیس لاکھ دینے کی پیش کش کی تھی مگر میں نے انکار کردیا، میرے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں مگر اپنے بیٹے کا گوشت بیچ کرپوتوں کو نہیں کھلا سکتا)۔
سرکاری وکیل ساجد الیاس نے کہاکہ ہربار نئی رپورٹ ہوتی ہے، اگر یہ کیس مکمل ہو گیا تب بھی یہ عدالت آئیں گے۔آمنہ مسعود نے وکیل کے طنز کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ اگر سوسال لگیں گے تب بھی ان کو ہربار رپورٹ دینا ہوگی، اور جب تک آخری لاپتہ شخص کا معلوم نہیں ہوتا عدالت میں کھڑی رہوں گی۔جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں کو اصل حقائق نہ بتانے کے پیچھے چھپی منطق سمجھ نہیں آتی۔