جسٹس دوست محمد نے کہاکہ جب پشاور ہائیکورٹ میں تھا تو ایک لاپتہ شخص کا مقدمہ آیا، خفیہ اداروں نے رپورٹ دی کہ ہمارے پاس نہیں۔ اگلے ہفتے اس لاپتہ نے سنتری سے بندوق چھینی اور فائر کردیا، اس کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کراکے اس کی حراست کو قانونی بنانے کی کوشش کی توہائیکورٹ نے ایکشن لیا اورکیپٹن کے کورٹ مارشل کی سفارش کی بات کی تو وہ ہل گیا۔ ہم نہیں چاہتے کہ موجودہ حالات میں ایسی کوئی بات ہو۔ایک شخص کو لاپتہ کرکے ڈیڑھ سو افراد کو اپنا دشمن بنادیا جاتا ہے کیونکہ غائب کئے جانے والے کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔ وکیل کرنل انعام نے کہاکہ ایک سو سے زائد لاپتہ افراد حراست میں مرچکے ہیں۔
عدالت میں ایک بزرگ خاتون کھڑی ہوئی اور کہاکہ جج صاحب،میرے بیٹے فیصل فراز کا پتہ لگائیں، بارہ سال گزرگئے۔آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ فیصل فراز اور میرے شوہر مسعود ایک ہی دن لاپتہ ہوئے تھے، فیصل فرازلاہور میں انجینئر تھے، کمیشن نے چار سال قبل یہ معاملہ نمٹا دیا ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا ہم یہ کیس ختم نہیں کررہے، اس طرح نہیں چھوڑ سکتے۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ وفاقی حکومت کے وکیل عدالت کو بتا رہے ہیں کہ ریاست میں ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں حکومت نہیں جاسکتی اورہماری پہنچ سے دور ہیں۔
بزرگ خاتون نے کہاکہ مجھے ذرا بولنے دیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ آپ ایک گھنٹہ بولیں آپ کو سنیں گے۔ بزرگ خاتون بولیں کہ میں اب کیاکہہ سکتی ہوں، یادداشت ختم ہورہی ہے، اکلوتابیٹاتھا،اور کتنا جھیلوں گی۔بارہ سال سے کچھ نہیں ہوسکا، مجھے میرا بیٹا چاہیے،یہ ریاست نہیں مرے گی مگر ہم نے مرجانا ہے،اب وقت کم ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ریاست وہی رہتی ہے جہاں ایک شخص کا مرنا پوری ریاست کے مرنے کے برابر ہو، ریاست کے لیے ہم نے بھی یہی کہنا ہے۔ بزرگ خاتون نے کہاکہ نہیں،یہ نہیں مانتے،انہوں نے نہیں مرنا۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ قرآن کا حکم ہے(پھر ایک انسان کے مارے جانے کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قراردینے والی آیت پڑھی)۔ یہ ہم نہیں کہتے اللہ کا حکم ہے، یہ ہوگا ان شاءاللہ۔
عدالت میں لاپتہ گل محیط خان کے کیس کا نمبر پکارا گیاتو سرکاری وکیل نے بتایا کہ وارث کمیشن کے سامنے بھی پیش نہیں ہوتے، ہوسکتا کہ وہ واپس آگیا ہو۔عدالت میں آواز گونجی کہ ہوسکتا ہے کہ ا س کے وارثوں نے امید چھوڑ دی ہو۔عدالت نے کمیشن کو ہدایت کی کہ چھ ہفتے میں رپورٹ دی جائے۔ سماعت جنوری کی نو تاریخ تک ملتوی کردی گئی۔
… … …… … …… … …… … …… … …… … …
غائبستان کی سپریم کورٹ:
ایک ماہ بعد مقدمے کی سماعت ہوتی ہے،سیکڑوں لاپتہ میں سے چھ کے کیس سننے کی باری ہوتی ہے۔بہت سے لاپتہ افراد کے لواحقین ویسے ہی کسی امید میں عدالت پہنچ جاتے ہیں۔آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ چار خواتین جن میں تین عمر رسیدہ مائیں تھیں جب کہ کچھ بوڑھے شہری صبح نو بجے سپریم کورٹ پہنچے۔جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے بیٹھے رہے اور دن ڈیڑھ بجے مقدمے کی باری اس وقت آئی جب دیگر تمام کیس سن لیے گئے۔لاپتہ افراد مقدمے کے آغاز میں ایک بزرگ نے عدالت کو بتایاکہ میرے داماد تاسف ملک سے عدالتی حکم کے مطابق ملاقات نہیں کرائی گئی صرف چند منٹ کے لیے دکھایا گیا، آج عدالت نے میری درخواست کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا، ایسا کیوں ہوا؟جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آئندہ سماعت پر مقرر کردی جائے گی، آپ تشریف رکھیں۔ہم نے واضح کیاہے کہ حراستی مراکز میں موجود ہر شخص کے بارے میں معلوم کریں گے، پوچھا ہے کہ الزام سامنے لایا جائے اور عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔لاپتہ مدثر اقبال کے بارے میں عدالت کو لاپتہ افراد کمیشن کے سیکرٹری نے بتایا کہ ایجنسیوں سے چھ ہفتے میں رپورٹ مانگی اور لاپتہ کو پیش کرنے کے لیےکہا ہے۔آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایا کہ مدثر اقبال کی والدہ کو کمیشن نے پیش ہونےکے لیے نوٹس جاری کیاہے وہ معذور ہیں، عدالت ہدایت کرے کہ ان کی جگہ میں پیش ہوں۔سیکرٹری کمیشن نے مخالفت کرتے ہوئے کہ وہاں ہرکسی کو آنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔تاہم سپریم کورٹ نے ہدایت جاری کی کہ آمنہ مسعود لاپتہ مدثر اقبال کی جانب سے کمیشن کے سامنے پیش ہوں گی۔
لاپتہ نویدالرحمان کے بارے میں کمیشن کے سیکرٹری نے بتایا کہ اس کو پیش کرنے کے حکم کے اجراکے بعد جب نہ لایا گیا تو کمیشن نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ جن افراد نے اس کے گھرپر چھاپہ مار کر حراست میں لیا تھا ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔عدالت کے پوچھنے پر بتایا گیاکہ ابھی تک معلوم نہیں کہ کارروائی ہوئی یا نہیں۔کمیشن کے سیکرٹری نے بتایاکہ اس دوران نویدالرحمان کے اہل خانہ کی جانب سے ایک اور درخواست آئی کہ معاملے کو دوبارہ کھولا جائے اورہمیں معاوضہ ادا کیا جائے۔عدالت کے پوچھنے پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے بتایا کہ کمیشن نے وفاقی حکومت کو اس پر نوٹس جاری کیاہے ، ابھی تک جواب نہیں آیا،دیکھ رہے ہیں کہ کیا یہ ہماری پالیسی کے مطابق ہے یانہیں۔
عدالت میں ایک بزرگ خاتون کھڑی ہوئی اور کہاکہ جج صاحب،میرے بیٹے فیصل فراز کا پتہ لگائیں، بارہ سال گزرگئے۔آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ فیصل فراز اور میرے شوہر مسعود ایک ہی دن لاپتہ ہوئے تھے، فیصل فرازلاہور میں انجینئر تھے، کمیشن نے چار سال قبل یہ معاملہ نمٹا دیا ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا ہم یہ کیس ختم نہیں کررہے، اس طرح نہیں چھوڑ سکتے۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ وفاقی حکومت کے وکیل عدالت کو بتا رہے ہیں کہ ریاست میں ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں حکومت نہیں جاسکتی اورہماری پہنچ سے دور ہیں۔
بزرگ خاتون نے کہاکہ مجھے ذرا بولنے دیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ آپ ایک گھنٹہ بولیں آپ کو سنیں گے۔ بزرگ خاتون بولیں کہ میں اب کیاکہہ سکتی ہوں، یادداشت ختم ہورہی ہے، اکلوتابیٹاتھا،اور کتنا جھیلوں گی۔بارہ سال سے کچھ نہیں ہوسکا، مجھے میرا بیٹا چاہیے،یہ ریاست نہیں مرے گی مگر ہم نے مرجانا ہے،اب وقت کم ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ریاست وہی رہتی ہے جہاں ایک شخص کا مرنا پوری ریاست کے مرنے کے برابر ہو، ریاست کے لیے ہم نے بھی یہی کہنا ہے۔ بزرگ خاتون نے کہاکہ نہیں،یہ نہیں مانتے،انہوں نے نہیں مرنا۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ قرآن کا حکم ہے(پھر ایک انسان کے مارے جانے کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قراردینے والی آیت پڑھی)۔ یہ ہم نہیں کہتے اللہ کا حکم ہے، یہ ہوگا ان شاءاللہ۔
عدالت میں لاپتہ گل محیط خان کے کیس کا نمبر پکارا گیاتو سرکاری وکیل نے بتایا کہ وارث کمیشن کے سامنے بھی پیش نہیں ہوتے، ہوسکتا کہ وہ واپس آگیا ہو۔عدالت میں آواز گونجی کہ ہوسکتا ہے کہ ا س کے وارثوں نے امید چھوڑ دی ہو۔عدالت نے کمیشن کو ہدایت کی کہ چھ ہفتے میں رپورٹ دی جائے۔ سماعت جنوری کی نو تاریخ تک ملتوی کردی گئی۔
… … …… … …… … …… … …… … …… … …
غائبستان کی سپریم کورٹ:
ایک ماہ بعد مقدمے کی سماعت ہوتی ہے،سیکڑوں لاپتہ میں سے چھ کے کیس سننے کی باری ہوتی ہے۔بہت سے لاپتہ افراد کے لواحقین ویسے ہی کسی امید میں عدالت پہنچ جاتے ہیں۔آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ چار خواتین جن میں تین عمر رسیدہ مائیں تھیں جب کہ کچھ بوڑھے شہری صبح نو بجے سپریم کورٹ پہنچے۔جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے بیٹھے رہے اور دن ڈیڑھ بجے مقدمے کی باری اس وقت آئی جب دیگر تمام کیس سن لیے گئے۔لاپتہ افراد مقدمے کے آغاز میں ایک بزرگ نے عدالت کو بتایاکہ میرے داماد تاسف ملک سے عدالتی حکم کے مطابق ملاقات نہیں کرائی گئی صرف چند منٹ کے لیے دکھایا گیا، آج عدالت نے میری درخواست کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا، ایسا کیوں ہوا؟جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آئندہ سماعت پر مقرر کردی جائے گی، آپ تشریف رکھیں۔ہم نے واضح کیاہے کہ حراستی مراکز میں موجود ہر شخص کے بارے میں معلوم کریں گے، پوچھا ہے کہ الزام سامنے لایا جائے اور عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔لاپتہ مدثر اقبال کے بارے میں عدالت کو لاپتہ افراد کمیشن کے سیکرٹری نے بتایا کہ ایجنسیوں سے چھ ہفتے میں رپورٹ مانگی اور لاپتہ کو پیش کرنے کے لیےکہا ہے۔آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایا کہ مدثر اقبال کی والدہ کو کمیشن نے پیش ہونےکے لیے نوٹس جاری کیاہے وہ معذور ہیں، عدالت ہدایت کرے کہ ان کی جگہ میں پیش ہوں۔سیکرٹری کمیشن نے مخالفت کرتے ہوئے کہ وہاں ہرکسی کو آنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔تاہم سپریم کورٹ نے ہدایت جاری کی کہ آمنہ مسعود لاپتہ مدثر اقبال کی جانب سے کمیشن کے سامنے پیش ہوں گی۔
لاپتہ نویدالرحمان کے بارے میں کمیشن کے سیکرٹری نے بتایا کہ اس کو پیش کرنے کے حکم کے اجراکے بعد جب نہ لایا گیا تو کمیشن نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ جن افراد نے اس کے گھرپر چھاپہ مار کر حراست میں لیا تھا ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔عدالت کے پوچھنے پر بتایا گیاکہ ابھی تک معلوم نہیں کہ کارروائی ہوئی یا نہیں۔کمیشن کے سیکرٹری نے بتایاکہ اس دوران نویدالرحمان کے اہل خانہ کی جانب سے ایک اور درخواست آئی کہ معاملے کو دوبارہ کھولا جائے اورہمیں معاوضہ ادا کیا جائے۔عدالت کے پوچھنے پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے بتایا کہ کمیشن نے وفاقی حکومت کو اس پر نوٹس جاری کیاہے ، ابھی تک جواب نہیں آیا،دیکھ رہے ہیں کہ کیا یہ ہماری پالیسی کے مطابق ہے یانہیں۔