طرح مختاراں مائی کو انصاف فراہم کیا گیا! اسے بین الاقوامی سطح پراُس سپر پاور کی طرف سے’’عزت‘‘دی گئی جہاں ہر ۳ سیکنڈ میں دس عورتوں کی عصمت پامال کی جاتی ہے! ایسا انصاف جس نے این جی اوز کی آنٹیوں کو پاکستان میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ مغرب زدہ خواتین جو باقاعدہ مقاصد کے ساتھ آپ عوام کے درمیان پھل پھول رہی ہیں۔LGBT کی تحریک ان ایجنٹوں کے ذریعے سے ہی آپ کے گھروں تک میں داخل ہو چکی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اس صورت حال میں اب بھی ہماری عوام میں ایسے بھولے لوگوں کی کمی نہیں کہ جو اِن بے دین اورگمراہ حکمرانوں اور اسلام بے زارخائن جرنیلوں سے انصاف کی توقع رکھےہوئے ہیں۔ جن کے لیے شراب نوشی، زنا، بیٹیوں اور بیویوں کا تبادلہ کوئی معنی رکھتا ہی نہیں۔اس موقع پرجنرل باجوہ نے بھی اپنی ’’کردار‘‘اداکیا کہ وہ زینب کو انصاف دلائے گا! سبحان اللہ! کیا یہ وہی فوج نہیں، جس کے ایک افسر نے بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ زیادتی کی اور اس بے چاری بیٹی کی انصاف کے لیے کی گئی چیخ وپکار‘گونج بن کر فضامیں تحلیل ہو گئی۔ کیا یہ وہی فوج نہیں کہ جس نے جامعہ حفصہ کی سیکڑوں زینبوں کو فاسفورس بموں سے جلایا اور جامعہ کی معلمات و طالبات کو قید کیا جو ابھی تک ان کے عقوبت خانوں میں بند ہیں۔ یہ وہی فوج ہی تو ہے کہ جس نے سوات سے کئی ہزارعفت مآب خواتین کو لاپتہ کیا۔ جنہوں نے وزیرستان میں طاقت کا اندھا استعمال کر کے سیکڑوں عورتوں اور بچوں کو شہید کیا۔ اور سب سے بڑھ کر اس قوم پر جو کلنک کا ٹیکا لگایا، ڈالروں کے عوض اپنی بیٹی کو بیچا!
جو لوگ قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنی آزاد خیالی اور ترقی پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ دراصل یہ چاہتے ہیں کہ انسان اور حیوان کا امتیاز مٹ جائے اور انسان جانوروں کی طرح جو جی میں آئے کرتا رہے ۔وہ نظام کہ جہاں لوگ اپنے ماں باپ کو اولڈ ہاوس کے حوالے کر کے کتوں کی خدمت کو سعادت سمجھتے ہو، اپنے گھر کتے بلیوں کے ریوڑ پالتے ہوں لیکن انسانوں سے تعصب رکھتے ہیں، جب ہم ایسے لوگوں میں اپنی ترقی تلاش کریں گے تو ان کی طرح کا بگاڑ ہمارے معاشرے میں بھی آئے گا۔
؎یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بیکاری و عریانی و مئے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات؟
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات
جو لوگ زنا کی شرعی سزا سنگساری اور کوڑوں کے خلاف پروپیگنڈے کرتے ہیں ،ان کو اب تو سمجھ جانا چاہیے کہ قرآن کے بتائے قانون میں ہی انسان کی زندگی کا راز مضمر ہے ۔ اس طرح آئے روز ہونے والی درندگی میں قصور ہمارا ہی تو ہے!ہم نے گھر کاروبار نوکری تعلیم سیاست سمیت زندگی کے کسی شعبے میں اب تک مسلمان بن کر جینے کا فیصلہ ہی نہیں کیا۔
اے پاکستان کے سادہ لوح عوام! کیا اب وہ وقت آ نہیں گیا کہ آپ اس باطل نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ آپ کی عزتیں محفوظ نہیں، آپ کی جانیں ان لادین سیکولر گمراہ حکمران و جرنیلوں پر قربان ہو رہی ہیں۔ آپ کو عدل و انصاف کا مفہوم بھی یاد نہیں! مسئلہ اس نظام کا ہے!کیا وقت آ نہیں گیا کہ ہم حقائق کا سامنا کریں ، محض افراد کو قصور وار ٹھہرا کر مسئلے کی اصل جڑ سے سے آنکھیں نہ چرائیں۔ مسئلہ افراد کا نہیں! رذیل، بد طینت، بد کردار افراد تو مختلف تناسب سے ہر معاشرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ مسئلہ اس نظام کا ہے! اس نظام سے بغاوت اور برأت ہی اصل حل ہے!
؎لہو پر قرض ہوتی جارہی ہے
بغاوت فرض ہوتی جارہی ہے
شہید عالمِ ربّانی استاد احمد فاروق رحمہ اللہ اپنے بیان ’’پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!‘‘میں فرماتے ہیں
’’ مسئلہ اس نظام کا ہے جو ان رذیل ترین لوگوں کو معزز قوم پر مسلط کرتا ہے۔ جو حقیقی معززین کو ذلیل اور ذلیل و حقیر لوگوں کو معزز بناتا ہے۔ جب تک یہ باطل نظام جڑ سے نہیں بدلا جاتا، محض چہرے بدلنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا!اس نظام نے ہم سے ہماری آزادی چھینی ہے، ہمارے معاشروں پر سے علماکی گرفت کو توڑا ہے، ہمارے درمیان سے شریعت کو معطل کیا ہے، اور ہمیں فرنگی قانون ماننے پر مجبور کیا ہے‘‘۔
اسی طرح شہید کمان دان فرمان شنواری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اے پاکستان کے بے چارے عوام! کیا اب بھی وقت نہیں کہ ہم اپنے عظیم الشان عالمگیر دین اسلام کی حقانیت کو تسلیم کریں۔ متحد ہو کر شرعی حدود کے نفاذ کا پُرزور مطالبہ کریں‘‘۔
یہ بات کسی کے ذہن سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ نفاذِ شریعت اور احکامِ شریعت لاگو کرنے سے پوری امت افراتفری اور تباہی سے محفوظ ہوگی ، معاشروں میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا،اس کے لیےترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے والے بے وقوف ، مجرم اور فسادی طبع لوگوں کو روکنا ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے معاشرے کو سمندر میں چلتی ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ساحل تک پر امن انداز سے پہنچنا چاہتے ہو تو کشتی میں سوراخ کرنے والوں کو روکنا ہوگا۔
شرعی سزاؤں کے بارے میں زبان درازی کرنے والے
اس صورت حال میں اب بھی ہماری عوام میں ایسے بھولے لوگوں کی کمی نہیں کہ جو اِن بے دین اورگمراہ حکمرانوں اور اسلام بے زارخائن جرنیلوں سے انصاف کی توقع رکھےہوئے ہیں۔ جن کے لیے شراب نوشی، زنا، بیٹیوں اور بیویوں کا تبادلہ کوئی معنی رکھتا ہی نہیں۔اس موقع پرجنرل باجوہ نے بھی اپنی ’’کردار‘‘اداکیا کہ وہ زینب کو انصاف دلائے گا! سبحان اللہ! کیا یہ وہی فوج نہیں، جس کے ایک افسر نے بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ زیادتی کی اور اس بے چاری بیٹی کی انصاف کے لیے کی گئی چیخ وپکار‘گونج بن کر فضامیں تحلیل ہو گئی۔ کیا یہ وہی فوج نہیں کہ جس نے جامعہ حفصہ کی سیکڑوں زینبوں کو فاسفورس بموں سے جلایا اور جامعہ کی معلمات و طالبات کو قید کیا جو ابھی تک ان کے عقوبت خانوں میں بند ہیں۔ یہ وہی فوج ہی تو ہے کہ جس نے سوات سے کئی ہزارعفت مآب خواتین کو لاپتہ کیا۔ جنہوں نے وزیرستان میں طاقت کا اندھا استعمال کر کے سیکڑوں عورتوں اور بچوں کو شہید کیا۔ اور سب سے بڑھ کر اس قوم پر جو کلنک کا ٹیکا لگایا، ڈالروں کے عوض اپنی بیٹی کو بیچا!
جو لوگ قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنی آزاد خیالی اور ترقی پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ دراصل یہ چاہتے ہیں کہ انسان اور حیوان کا امتیاز مٹ جائے اور انسان جانوروں کی طرح جو جی میں آئے کرتا رہے ۔وہ نظام کہ جہاں لوگ اپنے ماں باپ کو اولڈ ہاوس کے حوالے کر کے کتوں کی خدمت کو سعادت سمجھتے ہو، اپنے گھر کتے بلیوں کے ریوڑ پالتے ہوں لیکن انسانوں سے تعصب رکھتے ہیں، جب ہم ایسے لوگوں میں اپنی ترقی تلاش کریں گے تو ان کی طرح کا بگاڑ ہمارے معاشرے میں بھی آئے گا۔
؎یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بیکاری و عریانی و مئے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات؟
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات
جو لوگ زنا کی شرعی سزا سنگساری اور کوڑوں کے خلاف پروپیگنڈے کرتے ہیں ،ان کو اب تو سمجھ جانا چاہیے کہ قرآن کے بتائے قانون میں ہی انسان کی زندگی کا راز مضمر ہے ۔ اس طرح آئے روز ہونے والی درندگی میں قصور ہمارا ہی تو ہے!ہم نے گھر کاروبار نوکری تعلیم سیاست سمیت زندگی کے کسی شعبے میں اب تک مسلمان بن کر جینے کا فیصلہ ہی نہیں کیا۔
اے پاکستان کے سادہ لوح عوام! کیا اب وہ وقت آ نہیں گیا کہ آپ اس باطل نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ آپ کی عزتیں محفوظ نہیں، آپ کی جانیں ان لادین سیکولر گمراہ حکمران و جرنیلوں پر قربان ہو رہی ہیں۔ آپ کو عدل و انصاف کا مفہوم بھی یاد نہیں! مسئلہ اس نظام کا ہے!کیا وقت آ نہیں گیا کہ ہم حقائق کا سامنا کریں ، محض افراد کو قصور وار ٹھہرا کر مسئلے کی اصل جڑ سے سے آنکھیں نہ چرائیں۔ مسئلہ افراد کا نہیں! رذیل، بد طینت، بد کردار افراد تو مختلف تناسب سے ہر معاشرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ مسئلہ اس نظام کا ہے! اس نظام سے بغاوت اور برأت ہی اصل حل ہے!
؎لہو پر قرض ہوتی جارہی ہے
بغاوت فرض ہوتی جارہی ہے
شہید عالمِ ربّانی استاد احمد فاروق رحمہ اللہ اپنے بیان ’’پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!‘‘میں فرماتے ہیں
’’ مسئلہ اس نظام کا ہے جو ان رذیل ترین لوگوں کو معزز قوم پر مسلط کرتا ہے۔ جو حقیقی معززین کو ذلیل اور ذلیل و حقیر لوگوں کو معزز بناتا ہے۔ جب تک یہ باطل نظام جڑ سے نہیں بدلا جاتا، محض چہرے بدلنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا!اس نظام نے ہم سے ہماری آزادی چھینی ہے، ہمارے معاشروں پر سے علماکی گرفت کو توڑا ہے، ہمارے درمیان سے شریعت کو معطل کیا ہے، اور ہمیں فرنگی قانون ماننے پر مجبور کیا ہے‘‘۔
اسی طرح شہید کمان دان فرمان شنواری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اے پاکستان کے بے چارے عوام! کیا اب بھی وقت نہیں کہ ہم اپنے عظیم الشان عالمگیر دین اسلام کی حقانیت کو تسلیم کریں۔ متحد ہو کر شرعی حدود کے نفاذ کا پُرزور مطالبہ کریں‘‘۔
یہ بات کسی کے ذہن سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ نفاذِ شریعت اور احکامِ شریعت لاگو کرنے سے پوری امت افراتفری اور تباہی سے محفوظ ہوگی ، معاشروں میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا،اس کے لیےترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے والے بے وقوف ، مجرم اور فسادی طبع لوگوں کو روکنا ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے معاشرے کو سمندر میں چلتی ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ساحل تک پر امن انداز سے پہنچنا چاہتے ہو تو کشتی میں سوراخ کرنے والوں کو روکنا ہوگا۔
شرعی سزاؤں کے بارے میں زبان درازی کرنے والے