اسلامی دنیا


Channel's geo and language: not specified, not specified
Category: not specified


قرآن و حدیث, علماء کے اقوال, منتخب اقتباسات, کالم , ویڈیوز, اور مسلم دنیا سے متعلق خبریں اور تبصرے
fb.com/idunyaurdu
fb.com/Iworld.eng
t.me/iworldnews

Related channels

Channel's geo and language
not specified, not specified
Category
not specified
Statistics
Posts filter


کمان دان نور محمد شہید تو ہوگئے مگر ان ہی کا ترتیب دیا منصوبہ ان کی شہادت کے کچھ ہی وقت بعد دشمنوں کو بتا گیا۔شہید مرتے نہیں بلکہ زندہ ہوتے ہیں مگر تم شعور نہیں رکھتے ۔۲۰۱۷ کے اختتام اورپر جب ایک مہاجر اور دوا نصار مجاہد پلوامہ میں کے اوانتی پورہ میں سی آر پی ایف کے ہزاروں اہلکاروں پر مشتمل تربیتی اور رہائشی مرکزمیں داخل ہوگئےاور دشمن کی صفوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔چانکیا کے مرید شاطر مشرک اپنے پانچ مردار خود منہ سے تسلیم کررہے ہیں جو کسی صورت وادی میں دشمن کا کم نقصان نہیں مگر خوش خبری ہو اہل ایمان کے لیے کہ یہ دشمن کا حقیقی نقصان نہیں ۔دشمن ہندوستان کے دور دراز علاقوں کے مردار سپاہیوں کے قتل کی خبریں اکثر چھپانے میں کامیاب ہوجاتا ہےمگر رات کی تاریکیوں میں کاغذی کارٹنز میں انڈیا بھیجی جاتی مشرکوں کی ساری لاشیں مجاہدین کے زیر ملاحظہ رہتی ہیں الحمدللہ۔پلوامہ سی آر پی ایف کیمپ میں یہ لڑائی تقریبا دو دن پر محیط پر رہی ۔اور اس کارروائی کے بعد دشمن نے کشمیر بھر میں ریڈالرٹ جاری کیا ہوا ہے۔وجہ یہ کہ ایسے فدائی حملے عمومی طور پر مہاجر مجاہدین سرانجام دیتے آئے ہیں ۔مگر ایک طویل عرصے کے بعد مقامی بھائیوں نے ایسی کارروائی سرانجام دی۔اے مشرکو!تم جتنے مرضی الرٹ جاری کرلو اور اے خائنو! تم جتنی مرضی چالیں چل لو اب جہاد ِ کشمیر اپنےپاؤں پر کھڑا ہوچکا ہے۔اوراب کی بار بنیادیں بھی بہت مضبوط ہیں ۔اب آزادی جناح یا گاندھی والی نہیں صحابہ ؓوالی درکار ہے۔اب جنگ وطن کے لیے نہیں خلافت کے لیے ہے۔اب دشمنی زمین کے لیے نہیں توحید کے لیےہے۔اب ہم نے نماز ِجمعہ مظفرآباد نہیں بلکہ دہلی میں ادا کرنے کا عہد کیا ہے۔کشمیری مسلمان تم سے آزادی مانگتے رہے۔پرامن ہوکر بھی مانگی اور جلسوں اور قراردادوں سے بھی ۔تم نے جواب میں قتل عام کیے ۔ہر وہ ظلم جو تم کر سکتے تھے تم نے کیا۔مسلمان تم سے آزادی مانگتے رہے تم نے نہیں دی قریب ہی تھا تم چناروں کی سرزمین پر ناک رگڑتے مگر ہمارے” اپنوں “نے ہی ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا۔تم نے آزادی نہیں دی بلکہ آسیہ اور نیلوفر جیسے زخم دیے۔تم نے اپنی انا کی خاطر ہمارے افضل گورو کو شہید کیا۔پھر اس کی لاش تک نہی دی ۔اب ہم تم سے کشمیر کی آزادی مانگتے بھی نہیں ،اللہ کی قسم اب تو نظریں سیدھی ایودھیا پر ہیں ۔اب گجرات اور آسام آزاد کروایا جائےگا۔اب بات دکن سے پہلے ختم نہیں ہوگی ۔اب تم روؤگے اس دن کو جب تم نے کشمیر کے مسلمانوں کو محکوم رکھنے کا ارادہ کیا تھا۔تم لعن طعن کرو گے اپنے پچھلوں کوجو اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ کر خود تو مر کھپ گئے مگر تمہارے لیے آگ کا سمندر تیار کر گئے۔کیا تم نے کشمیری قوم کا مجاہدین اور مہاجرین سے پیار نہیں دیکھا۔
احباب!کمانڈر ابوالقاسم شہید کی شہادت پر دو سے تین کشمیر ی گاؤں کے باسی تو باقا عدہ آپس میں جھگڑپڑے کہ یہ مہاجر ہمارے ہاں دفنائے جائیں گے۔بھارتی مشرکین نے مہاجرین کی لاشیں عامۃ المسلمین کے حوالے کرنا ہی چھوڑ دیاتو سبحان اللہ کمانڈر ابودجانہ کی شہادت پر کشمیر کی ایک ماں نے دعویٰ کردیا کہ ابو دجانہ میرا بیٹا ہے جو ۱۳ سال قبل گھر سے جہاد کے لیے نکلاتھا۔ابھی ۲۰۱۷ءہی کے دسمبر میں شوپیاں میں ہماری ایک اور بہن ‘ مجاہدین کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئیں ہیں ۔
تو آؤ اے مشرکو!اب جنگ کو آؤ۔اب خوف کھاؤاپنے سائے سے بھی کہ مجاہدین تمہیں کہیں بھی آن پکڑیں گے ۔جس طرح تمہارے ساتھ ابھی سوپور کے مرکز میں ہوا۔ایک بارودی سرنگ کے دھماکے سے پانچ پولیس اہل کارسیدھے جہنم روانہ ہوئے۔یہ تو محض ایک تجربہ تھا عنقریب ان شاءاللہ یہی بم دھماکے تمہارے قدموں کے نیچے سے زمین بھی کھینچ لیں گے ۔
اللہ تعالی ہمیں سب کو اپنے دین میں مکمل اور کامل داخل کرلیں اور فرعون سے آزادی لے کر نمرود کی غلامی اختیار کرنے والے نظریےسے نکلنے اور صحابہؓ والی آزادی کا نظریہ اختیار کرنے کی توفیق دیں ۔اور صحابہؓ والی آزادی مکہ اور مدینہ سے نکل کر روم و فارس کو تاراج کرنا سکھاتی ہے۔صرف زمین کے ٹکڑے کو اپنا جینا مرنا بنالینا اور اس ہی کے لیے آزادی مانگنا گاندھی کا طریقہ ہے اللہ ہمیں صحابہ کا طریقہ اپنانے کی توفیق دیں ۔آمین۔
٭٭٭٭٭
نوائے افغان جہاد جمادی الاول۱۴۳۹ھ جنوری۲۰۱۸


آج یہ جہادی تحریک پڑوس کی ایجنسیوں اور فوج کے ہاتھوں میں ان شاء اللہ نہیں ہے۔ایجنسیوں اور فوج کی خیانت کے آپ ڈسے ہوئے ہیں اور ہمیں آپ کی ایمانی فراست پر یقین ہے کہ ان شاءا للہ آئندہ بھی آپ اپنے اس مبارک جہاد کوان خائنوں کا کبھی محتاج اور تابع نہیں کریں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’’ ایک مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا ‘‘۔
یہ افواج اور یہ ایجنسیاں ،کشمیر میں ہمارے اس مبارک جہاد کو اپنا غلام دیکھنا چاہیں گی۔مگر آپ اپنے اس قافلے کو اور صرف اللہ کا غلام رکھیے۔آپ کا جہاد آپ کے اخلاص پر مبنی ایک عظیم تحریک ہے۔اور آپ کی قربانیوں کی طویل تاریخ ان کے لیے کھیل ہے۔یہ ان کی سیاست اور گندی تجارت ہے۔یہ سب اپنے مفادات کے اسیر ہیں ۔یہ لالچی،غرض اور مطلب کے بندے ہیں۔واللہ!یہ آپ کی قربانیوں کو اپنے مفادات اور اغراض کی بھینٹ تو چڑھا سکتے ہیں ۔یہ بدمعاشوں کے ہاتھ آپ کی قربانیاں بیچ سکتے ہیں۔مگر ان ظالموں کے مقابل یہ آپ کے دفاع میں کھڑے ہوجائیں یہ ناممکن ہے۔لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ اللہ کے بعد صرف اللہ کے مومن بندو ں کو اپنے انصار سمجھیے۔انہی کو اپنا ہم رازرکھیے ۔اور مومن بندے‘وہ مومن بندے جو تنخواہ ترقی ،پلاٹ اور کسی دنیاوی غرض کی خاطر نہیں لڑتے بلکہ اللہ کے لیے محبت کرتے ہوں اور اللہ کے لیے نفرت کرتے ہوں ۔جو اللہ کے لیے دوستی رکھتے ہوں اور اللہ کے لیے دشمن رکھتے ہوں اور جو اللہ کے سامنے جواب دہی کے خوف سے اپنی کشمیری ماں ، بہن اور بھائی کی مدد اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوں ۔اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
والمومنون والمومنات بعضہم اولیا ء بعض۔
’’مومنین ایک دوسرے کے دوست ہم زاراور پشتی بان ہوتے ہیں‘‘۔جب کہ اس کااُلٹ دیکھیے
وان الظالمین بعضہم اولیاء بعض واللہ ولی المتقین
’’اور ظالم ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں ۔جب کہ اللہ متقین کا دوست ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہمیں متقین بنائے۔تو میرے بھائیو!مومن کشمیر کےاندر ہو، پاکستان ،ہندوستان یا افغانستان کے اند ر ہوں ۔وہ آپ کے دوست ہیں ،وہ آپ کادردسمجھتے ہیں۔اور ظالم ہندوستا ن کے اندر ہو یا پاکستان و افغانستان کے اندر ہو،وہ ظالم ہی ہے وہ آپ کا درد نہیں سمجھے گا۔وہ خود غرض ہوتا ہے وہ کبھی بھی کسی بھی وقت آپ کو چیختا چلاتا کراہتا ہوا چھوڑ کر واپس ہو سکتا ہے۔وہ آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ سکتا ہے۔اور کل کسی بھی موقع آپ کے تمام راز اپنی دنیا کی خاطرآپ کے دشمنوں کو دے سکتاہے۔بلکہ کسی وقت وہ خود آپ کا اعلانیہ دشمن بن سکتا ہے۔یہاں میں یہ بھی عرض کردوں کہ اللہ کے مومن بندے خراسان، پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں ا س پورے خطے میں الحمدللہ بے شمار موجود ہیں ۔یہی ان شاء اللہ ظالم بھارت کا ہاتھ کاٹیں گے اور انہیں کے ساتھ آپ کا رابطہ بننا اور آپ کی نصرت کے لیے انہیں کھڑا کرنا اور کھڑا رکھنا ہم القاعدہ برصغیر میں آپ کے بھائی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔اللہ ہمیں اس کی توفیق دیں اور اللہ ہمیں حق کے لیے ایک دوسرے کا دوست اور مدد گار بنائیں‘‘۔
اور یہی بات ’’شریعت یا شہادت‘‘ کے علم بردارمجاہدین اپنے دیگر بھائیوں کو اور شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی اٹھائی گئی عالم گیرجہادی تحریک مقامی مجاہدین کو ایک شاعر کی زبان میں یوں کہتی نظر آتی ہے۔
؎ اے عاشقان شہر ِوفا ہم سے آملو
کب تک سہو گے رسم ِجفا ہم سے آملو
چاہت کے معاملات ہیں سودو زیاں سے پاک
چھوڑو یہ سب جزا و سزا ہم سے آملو
ہم نے تمہارے پیار میں سب کچھ بھلادیا
شکوہ ہےکیوں ؟کیسا گلہ ؟ہم سے آملو
اس ہجر ِنامراد کو دے ڈالو اب شکست
ہونٹوں پہ لے کے حسن ِعطاہم سے آملو
اچھے دنوں کی آس پہ بیٹھے رہو نہ دور
کر ڈالیں مل کے کفر فنا ہم سے آملو
اسی عرصے میں کمان دان نور محمد ترالی کی شہادت کی خبر آن پہنچی ،دل غمگین اور آنکھیں نم ہوگئیں،اللہ تعالی ٰ آپ کی شہادت قبول فرمائیں ۔جہاد تو خیر کسی کا محتاج نہیں ، یہ اللہ کا کام ہے اور اس کوچلانے اور سنبھالنے والی ذات بھی اللہ ہی کی ہے۔آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ غازی بابا رحمہ اللہ کے ساتھی تھے۔تو سبحان اللہ منہج و موقف میں یکساں ہونے کے سبب محبت اور بڑھ جاتی ہے۔مجاہدین کی داخل ِ ہندوستان بہت نصرت کی،ایک وقت ہندی فوجوں کے ہاتھ کثیر رقم سمیت گرفتار ہوئے اور کفار سے” موت کا سوداگر‘‘لقب پایا۔اللہ کی قسم جھوٹے مشرک کافروکی زبان سے سچ ہی نکل گیا ،مجاہدین اب اللہ کے دین سے جنگ کرنے والے ہر نجس وجود کی موت کا سودا اپنے رب سے کر چکے ہیں ۔مرنے والا جہنم کا ایندھن بنا اورکاروبار ی عہد کے تحت مجاہد دوزخ سے آزاد ہوگا اور منافع میں جنت بھی پکی ہے۔ہم ان شاء اللہ شہید نور محمد کا انتقام ہند کے اندر ہی مشرکوں سے لیں گے۔مشرک منتظر رہیں۔اللہ کی قسم شہید کمان دان نور محمد کے اسلامی بھائی اور روحانی بیٹے جلد ہی ہند سے امت کو خوش خبری بھیجیں گے۔اور ایسا نہیں یہ صرف باتیں ہی ہوں۔


تم ہم سے آملو!
ابو دجانہ ثانی

بالآخر شیخ اسامہ محمود حفظہ اللہ تعالیٰ کاادارہ السحاب کو دیے گئےانٹرویو کا دوسرا حصہ جوکہ خاص کشمیر کے لیے تھا ،نشر ہوا۔الحمدللہ ۔عام مسلمانوں ،جہادِکشمیر کے محبین اور مجاہدین کشمیر کو ا س کا شدید انتظار تب سے تھا جب انٹرویو کے پہلے حصے میں کشمیر کی بابت اس خاص نشست کا اعلان کیا گیاتھا۔شیخ نے بہت سے شبہات کارد کیا،کئی غلط فہمیاں دور ہوئیں، بہت سی نئی معلومات ملیں اور ساتھ ہی شیخ نے خوش خبریاں بھی دیں۔
جہاں شیخ نے ببانگ ِ دہل اس بات کا اعلان کیا کہ جہادِ کشمیر اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہورہا ہے وہیں کشمیر و ہند کے مسلمانوں اور مصروف ِ عمل مجاہدین کو یہ خوب صورت پیغام بھی دیا کہ ہم عنقریب اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ مورچوں میں ہوں گے(ان شاء اللہ)۔صرف اتنا ہی نہیں اب تو خود ہند کے اندر اللہ مجاہدینِ خراسان کے لیے راستے ہموار کر رہے ہیں۔ اور امت باذن اللہ عنقریب ہندوستان سے خوش خبریاں سنے گی۔اورکشمیر سے تو سبحان اللہ!فرحت ہی فرحت دیکھنے کو ملتی ہے۔اور ایسا ہوبھی کیوں نا کہ شہداکی وارث اوران کے خون سے وفادارکشمیری قوم ایک مدت سے کفارِ ہند کے سامنے سینہ تان کر ڈٹی ہوئی ہے۔اللہ کے سامنے اپنے فرزند پیش کرتی اور مہاجرین و مجاہدین کی خاطراپنے گھراور بستیاں مسمار کرواتی ،اسی قوم کے ہاتھوں اللہ نے شرک کے اماموں کی رسوائی لکھ رکھی ہے۔اس عرصے میں عظیم ترین جہادی و دعوتی کامیابیوں کے تذکرے سے قبل ایک اور خوش خبری ملاحظہ کیجیے۔احباب جانتے ہیں کہ کشمیر صرف اور صرف شریعت چاہنے والے مجاہدین کا ہے۔ان مجاہدین کے سامنے منزل بالکل واضح ہے۔کہ کشمیرسے مشرک فوج کو نکال کر بابری مسجد تک پیش قدمی کرنا،پھر رختِ سفر برما کی جانب باندھنا تاکہ اللہ ی زمین پر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم کی جاسکے،ظالموں کی سرکوبی کی جائے اور مظلوموں کودینِ محمدی علی صاحبھا السلام ٹھنڈی اور میٹھی آغوش میں لایا جاسکے۔وادی میں شریعت یا شہادت کے علم بردارہمارے بھائیوں نے اگر اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس راستے کو اپنانے میں پہل کی ہے تو الحمدللہ وادی میں موجود دیگر برادر مجاہدین بھی اسی منہج کو اب بلند آواز میں بیان کرنے لگے ہیں ۔خلافت کے سپاہی شہید برہان وانی رحمہ اللہ ہی کے ایک ساتھی اور وادی میں اپنے نظم کے قائدبھائی کی صوتی گفتگو کشمیری مسلمانوں کی سماعتوں سے ٹکرائی جس میں آپ توحید باری تعالی ٰ پر گفتگو کر رہے تھے۔اور بتا رہے تھے کہ ایسے لوگوں اور علماکی توحید میں کچھ کمی ہے جو فقط اختلافی مسائل ہی میں امت الجھائے رکھتے ہیں اور اسلام کی حکومت و سطوت کی طرف دعوت نہیں دیتے ،نہ راہ ِجہاد پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔اس کے کچھ ہی عرصے کے اسی بھائی کا پیغام کفار اور ان کے جمہوری آلہ کاروں کوموت کا پیغام دے گیا ۔آپ نے وادی میں آئندہ سرپنچ کے انتخابات میں حصے لینے والوں کوانتہائی اذیت ناک انجام کی دھمکی دی۔اور تمام تعریفیں تو اللہ ہی کے لیے ہیں۔ہم اپنے اس انتہائی شفیق،سینئر اورعظیم بھائی کے لیے اللہ سے راہ حق پر استقامت طلب کرتے۔اور اگر اللہ نے چاہا تو مجاہدین ِ اسلام عنقریب کاندھے سے کاندھا ملائے سری نگر کے لال چوک پر کلمے والا پرچم لہرا رہے ہوں گے اور اللہ یہ منظر بھی ہماری آنکھوں کو دکھلائے جب اسی لال وک سے غازیوں کے قافلے دہلی کی سمت پیش قدمی کریں۔اللہ کے اذن کے کشمیر ی مجاہدین نے جونہی وطنیت کے بت توڑے ہیں ،آئی ایس آئی اور اس ہرکارے اپنی اوقات دکھا چکے ہیں۔معمولی معمولی باتوں پر فیلڈ میں موجود مجاہدین کی سرزنش ،امریکی امداد پر پلنے والی خائن ایجنسی کے بےوقوف نوکروں کی بے بسی اور کج فہمی کو مجاہدین پر اور واضح کرتی جارہی ہے۔آج وہ مجاہدین کہ جن کا اس نظام سے کچھ نہ کچھ تعلق ہی موجود ہے‘انہیں بھی اپنے وسائل کے معاملہ میں پریشانی کا سامنا ہے۔اور یہی بات انہیں ہندوستانی مفادات سے غنائم چھیننے پر مجبور کرتی ہے۔یقیناً میدان جنگ میں موجود مجاہدین کا حمایتی و مدد گار اکیلا عرش والا اللہ ہی ہے جو الحی القیوم ہے اور کبھی اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا،اور بندے بھی وہ جو اس کے خاص ، مقرب اور چنیدہ ہوں مگر یہ واقعات مجاہدین کشمیر کی آنکھیں کھول دینے لیے ضرور کافی ہیں کہ چلئے ’’شریعت یا شہادت ‘‘کے علم برداربھائی توعالمی طواغیت سمیت ہر ایک ہی کے’مجرم‘ہیں مگر عام مجاہدین سے کیا دشمنی ؟ان معاملات کو مزید بہتر انداز میں سمجھا جاسکتا ہے اگر شہید برہان وانی کی وہ صوتی گفتگو سن لی جائے جس میں تعاون طلب کرنے پر جواب میں انہیں فقط”دعائیں‘‘بےرخی یا آسان الفاظ میں حقارت ہی ملتی ہے۔اللہ اس خائن اور کفر کی ایجنٹ خفیہ ایجنسی کو تباہ و برباد کریں ۔
استاد اسامہ محمود حفظہ اللہ نے مجاہدین کشمیر کو مخاطب کر کے فرمایا:
”الحمدللہ ، اللہ کی نعمت ہے کہ تحریکِ آزادی کشمیر آج خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہورہی ہے۔




عدالت نے ڈپٹی اٹارنی کو ہدایت کی کہ ایک ہفتے میں واضح جواب دیا جائے۔
اس کے بعد آمنہ مسعود جنجوعہ کے شوہر کے مقدمے کی باری آئی تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت میں سربمہر لفافے میں وزارت دفاع کی جانب سے میمورنڈم پیش کیا، بتایا گیا کہ یہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کا جواب ہے، اس کو سامنے نہ لایاجائے۔آمنہ مسعود نے کہاکہ یہ رپورٹ مجھے بھی دی جائے، کیا پڑھ کر جواب دینے کی اجازت دی جائے گی؟جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم ایسے نہیں ہٹیں گے، جو کچھ بھی کرسکے کریں گے، رپورٹ میں سے بین السطور پڑھتے ہیں۔ڈپٹی اٹارنی نے کہاکہ یہ رپورٹ مسعود جنجوعہ اور ان کے ساتھ لاپتہ ہونے والے فیصل فراز کے بارے میں ہےاسی دوران لاپتہ فیصل فراز کی والدہ عدالت میں بولیں کہ اس رپورٹ میں کیا ہے بتائیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ بی بی! انہوں نے رپورٹ فائل کی ہے۔ماں پھر بولی کہ یہ ہزار دفعہ رپورٹ دے چکے ہیں، بارہ سال سے ایسا کررہے ہیں، وقت گزاری کے لیےہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے کہا کہ یہ لوگ اس لیول پر یہ کر رہے ہیں۔ماں بولی کہ لیول کیاہے بیٹا، مجھے بتائیں ذرا۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ایسا نہیں ہے۔
لاپتہ عبدالرحمان کے مقدمے میں عدالت کو بتایا گیا کہ یہ دوہزار گیارہ میں غائب ہوا تھا، گزشتہ سال کمیشن سے رجوع کیاگیا، اس کے خلاف فیصل آباد میں مقدمہ درج ہے، جے آئی ٹی بھی بن چکی ہے۔
عدالت کو لاپتہ کے لواحقین نے بتایاکہ کمیشن پر اعتماد نہیں، سپریم کورٹ خود ہی مقدمات سنے ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم واقعاتی شواہد کو دیکھتے ہیں، وفاقی حکومت کے جواب کے بعد ہم اندھیرے میں بھٹک جاتے ہیں اس لیے کمیشن کو مقدمات بھیجتے ہیں، اس کے بعد کسی کو کمیشن پر اعتماد نہیں تو عدالت کے دروازے بند نہیں کرتے، اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیےموجود ہیں، یہاں آجائیں۔لاپتہ افراد کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل انعام الرحیم نے کہاکہ کمیشن ناکام ہو چکا ہے۔ڈپٹی اٹارنی نے کہاکہ ایسی بات نہیں، کمیشن کام کررہاہے۔آمنہ مسعود نے کہاکہ کمیشن کو سات سال ہوگئے، رپورٹ کو تالے لگا کر رکھتے ہیں، چند سو مقدمات تھے اب پانچ ہزار سے بڑھ گئے ہیں، کیا یہ ایک کاروبار ہے؟یہ ایجنسیوں پر ہے کہ وہ جب جس کو چاہتے ہیں رہاکردیتے ہیں،کمیشن کا کوئی کردار نہیں،یہ ویسے ہی کریڈٹ لیتے ہیں۔کمیشن تو پوسٹ آفس ہے۔عدالت ان والدین کو دیکھے جو مررہے ہیں، لوگو ں کو ملک کی سب سے بڑی عدالت سے توقعات ہیں، آج یہاں مہمند ایجنسی سے والدین آئے ہوئے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہمیں معلوم ہے کہ کیا ہوا ہے، مالاکنڈ میں شورش ہوئی، وہاں سے کچھ لوگ افغانستان چلے گئے، وہاں ان کے ساتھ کیا ہوا، یہ بھی ایک معاملہ ہے۔ دوہزار پانچ سے اب تک جو ہو رہا ہے۔عدالت اور کمیشن سمیت کوئی بھی پورے یقین سے کسی لاپتہ فرد کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، اگر ہم ایسا کوئی حکم جاری کردیتے ہیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔عدالت کے سامنے مکمل اور درست معلومات نہیں ہوتیں، ایسی صورت میں کوئی موثر حکم جاری نہیں کرسکتے۔عدالت اسی لیے ہے کہ ریاست کے ہر شہری کا تحفظ کرے۔
وکیل انعام الرحیم نے کہا کہ عدالت ان سے حراستی مراکز میں قید لوگوں کی فہرست تو طلب کرلے، کتنے لوگ ہیں، ان پر کیا الزامات ہیں؟سپریم کورٹ نے دوہزار چودہ میں ۳۵افراد کے بارے میں حکم جاری کیا تھا، ان کو حراستی مراکز سے ہی غائب کر دیا گیا مگر عدالت نے اپنے حکم پر عمل نہ کرایا۔( اس بات پر جج تلملا کر رہ گئے)۔
لاپتہ گل محیط خان کے بارے میں کمیشن کے سیکرٹری نے بتایا کہ پیش کے لیے حکم جاری کیا تھا، آئی ایس آئی اور ایم آئی سے رپورٹ بھی مانگی ہے۔اسی دوران ایک شخص عدالت میں کھڑا ہوا اور کہاکہ میرا نام سردار محمد صدیق ہے اور میرے بیٹے ڈاکٹر سہیل کو انیس دسمبر دوہزار سترہ کو اسلام آباد سے تحویل میں لیا گیا ہے، پولیس ہمارا مقدمہ درج نہیں کررہی، کہاجا رہا ہے کہ ایجنسیوں نے اٹھایا ہے اس لیے مقدمہ درج نہیں کرسکتے، میری اہلیہ دل کی مریضہ ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہمارے سامنے آپ کی درخواست نہیں آئی۔ابھی دفتر نے اس کو مقرر نہیں کیا۔
اسی دوران آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ یہاں دو لاپتہ جوانوں کے ماں باپ دونوں آئے ہوئے ہیں، ان کا مقدمہ آج نہیں لگا مگر یہ ہمارے سمجھانے کے باوجود سپریم کورٹ آ جاتے ہیں۔عدالت ہدایت جاری کرے کہ آئندہ سماعت پر ان کے بیٹوں کے مقدمے کو بھی سماعت کے لیےمقرر کیا جائے۔
(بزرگ میاں بیوی ایک دوسرے کو عدالتی کرسیوں کے سہارے کھڑے رہنے میں مدد کرتے رہے، اس بات سے بے خبر کہ آج ان کو نہیں سنا جائے گا،یہ الگ بات ہے کہ جب ان کا کیس مقرر بھی ہوتا ہے تب بھی کچھ نہیں ہوتا)۔
٭٭٭٭

نوائے افغان جہاد جمادی الاول۱۴۳۹ھ جنوری۲۰۱۸


جسٹس دوست محمد نے کہاکہ جب پشاور ہائیکورٹ میں تھا تو ایک لاپتہ شخص کا مقدمہ آیا، خفیہ اداروں نے رپورٹ دی کہ ہمارے پاس نہیں۔ اگلے ہفتے اس لاپتہ نے سنتری سے بندوق چھینی اور فائر کردیا، اس کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کراکے اس کی حراست کو قانونی بنانے کی کوشش کی توہائیکورٹ نے ایکشن لیا اورکیپٹن کے کورٹ مارشل کی سفارش کی بات کی تو وہ ہل گیا۔ ہم نہیں چاہتے کہ موجودہ حالات میں ایسی کوئی بات ہو۔ایک شخص کو لاپتہ کرکے ڈیڑھ سو افراد کو اپنا دشمن بنادیا جاتا ہے کیونکہ غائب کئے جانے والے کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔ وکیل کرنل انعام نے کہاکہ ایک سو سے زائد لاپتہ افراد حراست میں مرچکے ہیں۔
عدالت میں ایک بزرگ خاتون کھڑی ہوئی اور کہاکہ جج صاحب،میرے بیٹے فیصل فراز کا پتہ لگائیں، بارہ سال گزرگئے۔آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ فیصل فراز اور میرے شوہر مسعود ایک ہی دن لاپتہ ہوئے تھے، فیصل فرازلاہور میں انجینئر تھے، کمیشن نے چار سال قبل یہ معاملہ نمٹا دیا ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا ہم یہ کیس ختم نہیں کررہے، اس طرح نہیں چھوڑ سکتے۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ وفاقی حکومت کے وکیل عدالت کو بتا رہے ہیں کہ ریاست میں ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں حکومت نہیں جاسکتی اورہماری پہنچ سے دور ہیں۔
بزرگ خاتون نے کہاکہ مجھے ذرا بولنے دیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ آپ ایک گھنٹہ بولیں آپ کو سنیں گے۔ بزرگ خاتون بولیں کہ میں اب کیاکہہ سکتی ہوں، یادداشت ختم ہورہی ہے، اکلوتابیٹاتھا،اور کتنا جھیلوں گی۔بارہ سال سے کچھ نہیں ہوسکا، مجھے میرا بیٹا چاہیے،یہ ریاست نہیں مرے گی مگر ہم نے مرجانا ہے،اب وقت کم ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ریاست وہی رہتی ہے جہاں ایک شخص کا مرنا پوری ریاست کے مرنے کے برابر ہو، ریاست کے لیے ہم نے بھی یہی کہنا ہے۔ بزرگ خاتون نے کہاکہ نہیں،یہ نہیں مانتے،انہوں نے نہیں مرنا۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ قرآن کا حکم ہے(پھر ایک انسان کے مارے جانے کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قراردینے والی آیت پڑھی)۔ یہ ہم نہیں کہتے اللہ کا حکم ہے، یہ ہوگا ان شاءاللہ۔
عدالت میں لاپتہ گل محیط خان کے کیس کا نمبر پکارا گیاتو سرکاری وکیل نے بتایا کہ وارث کمیشن کے سامنے بھی پیش نہیں ہوتے، ہوسکتا کہ وہ واپس آگیا ہو۔عدالت میں آواز گونجی کہ ہوسکتا ہے کہ ا س کے وارثوں نے امید چھوڑ دی ہو۔عدالت نے کمیشن کو ہدایت کی کہ چھ ہفتے میں رپورٹ دی جائے۔ سماعت جنوری کی نو تاریخ تک ملتوی کردی گئی۔
… … …… … …… … …… … …… … …… … …
غائبستان کی سپریم کورٹ:
ایک ماہ بعد مقدمے کی سماعت ہوتی ہے،سیکڑوں لاپتہ میں سے چھ کے کیس سننے کی باری ہوتی ہے۔بہت سے لاپتہ افراد کے لواحقین ویسے ہی کسی امید میں عدالت پہنچ جاتے ہیں۔آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ چار خواتین جن میں تین عمر رسیدہ مائیں تھیں جب کہ کچھ بوڑھے شہری صبح نو بجے سپریم کورٹ پہنچے۔جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے بیٹھے رہے اور دن ڈیڑھ بجے مقدمے کی باری اس وقت آئی جب دیگر تمام کیس سن لیے گئے۔لاپتہ افراد مقدمے کے آغاز میں ایک بزرگ نے عدالت کو بتایاکہ میرے داماد تاسف ملک سے عدالتی حکم کے مطابق ملاقات نہیں کرائی گئی صرف چند منٹ کے لیے دکھایا گیا، آج عدالت نے میری درخواست کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا، ایسا کیوں ہوا؟جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آئندہ سماعت پر مقرر کردی جائے گی، آپ تشریف رکھیں۔ہم نے واضح کیاہے کہ حراستی مراکز میں موجود ہر شخص کے بارے میں معلوم کریں گے، پوچھا ہے کہ الزام سامنے لایا جائے اور عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔لاپتہ مدثر اقبال کے بارے میں عدالت کو لاپتہ افراد کمیشن کے سیکرٹری نے بتایا کہ ایجنسیوں سے چھ ہفتے میں رپورٹ مانگی اور لاپتہ کو پیش کرنے کے لیےکہا ہے۔آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایا کہ مدثر اقبال کی والدہ کو کمیشن نے پیش ہونےکے لیے نوٹس جاری کیاہے وہ معذور ہیں، عدالت ہدایت کرے کہ ان کی جگہ میں پیش ہوں۔سیکرٹری کمیشن نے مخالفت کرتے ہوئے کہ وہاں ہرکسی کو آنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔تاہم سپریم کورٹ نے ہدایت جاری کی کہ آمنہ مسعود لاپتہ مدثر اقبال کی جانب سے کمیشن کے سامنے پیش ہوں گی۔
لاپتہ نویدالرحمان کے بارے میں کمیشن کے سیکرٹری نے بتایا کہ اس کو پیش کرنے کے حکم کے اجراکے بعد جب نہ لایا گیا تو کمیشن نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ جن افراد نے اس کے گھرپر چھاپہ مار کر حراست میں لیا تھا ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔عدالت کے پوچھنے پر بتایا گیاکہ ابھی تک معلوم نہیں کہ کارروائی ہوئی یا نہیں۔کمیشن کے سیکرٹری نے بتایاکہ اس دوران نویدالرحمان کے اہل خانہ کی جانب سے ایک اور درخواست آئی کہ معاملے کو دوبارہ کھولا جائے اورہمیں معاوضہ ادا کیا جائے۔عدالت کے پوچھنے پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے بتایا کہ کمیشن نے وفاقی حکومت کو اس پر نوٹس جاری کیاہے ، ابھی تک جواب نہیں آیا،دیکھ رہے ہیں کہ کیا یہ ہماری پالیسی کے مطابق ہے یانہیں۔


ٹرائل کرکے سزا دی گئی توسپریم کورٹ کا ریکارڈ خلاف جائے گا اور بات کھل جائے گی کہ غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور عدالت سے جھوٹ بولاگیا۔جسٹس دوست محمد نے کہاکہ سوات میں آپریشن کے بعد اڑھائی تین ہزار افراد کو کسی دوسری جگہ حراست میں رکھا گیا، ہائیکورٹ نے کہاتھاکہ ان افراد کو چھوڑ دیں یا پولیس کے حوالے کردیں۔ وکیل کرنل انعام بولے کہ قوم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حراستی مراکزمیں کتنے افراد ہیں، کل بیالیس مراکز ہیں۔سرکاری وکیل ساجد الیاس نے فورا ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کرنل انعام کو بتایاکہ کل ایک ہزار چارسو گیارہ افراد حراستی مراکز میں ہیں اور اس کی رپورٹ دی جاچکی ہے۔
جسٹس اعجازافضل نے پوچھا کہ حراستی مراکز میں قید افراد کا ٹرائل کیوں نہیں کیا جاتا؟ سرکاری وکیل بولے کہ اخبار میں خبر آئی ہے کہ کچھ مقدمات فوجی عدالت میں ٹرائل کے لیے بھیجے گئے ہیں۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ وفاقی حکومت کا وکیل بھی اخبار کی خبروں سے بتارہاہے،عدالت کو رپورٹ میں بتاناچاہیے ۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ آئین کی سبزکتاب کا احترام ہی نہیں،اس کو نصاب میں بڑی کلاسوں کے لیے شامل کرنا چاہیے، اگرکسی نے جرم کیا ہے تو قانون کے مطابق سزا دیں،سالہا سال سے سوات اور قبائلی علاقوں میں لوگ حراست میں ہیں،آئین میں لکھا ہے کہ گرفتار شخص کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیاجائے گا، برسوں سے حراست میں رکھنا غیرآئینی اور غیر قانونی ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی کو غیرمعینہ عرصے کے لیے زیرحراست نہیں رکھا جاسکتا۔ وکیل کرنل انعام نے کہاکہ یہ تو عام شہری ہیں، گروپ کیپٹن کو سروس کے دوران ٹارچر کرکے مار دیا گیا ہے۔جسٹس دوست محمد نے کہاکہ بدقسمتی یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی ساکھ کو کھویا ہے، ایجنسی والے عدالت کے سامنے سچ نہیں بولتے،ہم بھی نہیں چاہتے کہ کسی مجرم کو معاشرے میں کھلا چھوڑدیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ثبوت ۔سرکاری وکیل ساجد الیاس بولے کہ ان میں سے کچھ افغانستان میں ہیں۔جسٹس دوست نے کہاکہ افغانستان کی بات رہنے دیں یہ بتائیں کہ آپ کے پاس معلومات کیاہیں اور ثبوت کہاں ہیں؟فراہم کردیں تو ہم معاملہ نمٹادیں گے۔سرکاری وکیل نے کہا کہ کمیشن نے وقت مانگا ہے چھ ہفتے میں معلومات دے دیں گے۔
عدالت میں سفید داڑھی والا ایک عمررسیدہ شخص کھڑا ہوا ، پشتو میں کچھ بولنے لگا تو آمنہ مسعود نے کہاکہ یہ لاپتہ خیرالرحمان کا والد ہے، آج ان کا مقدمہ نہیں لگا، گزشتہ سماعت پر کارروائی مکمل نہیں ہوئی تھی اس لیے یہ آج بھی آئے ہیں۔جسٹس اعجازافضل نے انگریزی میں کہاکہ (ہزویری پریزنس ان دا کورٹ از سپائن چلنگ فار اس) اس بزرگ کی عدالت میں موجودگی ہی ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔سرکاری وکیل نے کہاکہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی رپورٹ بھی دی تھی،آئی بی نے بھی کہا ہے کہ شدت پسندوں سے رابطے تھے۔آمنہ مسعود نے کہاکہ خیرالرحمان کو لے کر جانا والا پولیس ایس ایچ او ارشد آج تک قبل ازگرفتاری ضمانت پر ہے،عرصہ ہوگیا اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا مگر آج تک تفتیش نہیں ہوسکی کہ اس نے خیرالرحمان کو کس کے حوالے کیا؟اس دوران بزرگ شخص روسٹرم پر بولنے کی کوشش کرتارہا تو وکیل نے کندھے پر ہاتھ کر دلاسا دیا اور خاموش رہنے کے لیے کہا۔ بزرگ شخص نے روسٹرم کو چھوڑا، عدالت میں کرسیوں پر بیٹھے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے پاس گیا اور ایس ایچ او ارشد کے بارے میں پشتو میں پوچھتا رہا۔ (حالانکہ کیس پختون خوا کا ہے)۔ پویس والوں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو بزرگ شخص واپس روسٹرم پر آیا اور آمنہ مسعود جنجوعہ کو کچھ بتانے کی کوشش کرنے لگا۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہمیں یہ مقدمہ یاد ہے۔ عدالت میں معاوضہ کی بات کی گئی تو وکیل کرنل انعام نے کہاکہ یہ ریاست کے خلاف جرم ہے معاوضے کی بات کیسے کی جاسکتی ہے۔ آمنہ مسعود نے بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ ہمیں نہیں ملتی،پتہ ہی نہیں ہوتاکہ کیا لکھ کرلائے ہیں، رپورٹ فراہم کی جائے تاکہ متاثرین کی مدد کرتے ہوئے ان کو آگاہ کرسکوں۔ ( عدالت کے باہر خیرالرحمان کے بزرگ والد نے میرے پوچھنے پر پشتو میں بتایا کہ اس کے بیٹے کو حراست میں لینے والے ایس ایچ او ارشد نے گھر آکر بیس لاکھ دینے کی پیش کش کی تھی مگر میں نے انکار کردیا، میرے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں مگر اپنے بیٹے کا گوشت بیچ کرپوتوں کو نہیں کھلا سکتا)۔
سرکاری وکیل ساجد الیاس نے کہاکہ ہربار نئی رپورٹ ہوتی ہے، اگر یہ کیس مکمل ہو گیا تب بھی یہ عدالت آئیں گے۔آمنہ مسعود نے وکیل کے طنز کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ اگر سوسال لگیں گے تب بھی ان کو ہربار رپورٹ دینا ہوگی، اور جب تک آخری لاپتہ شخص کا معلوم نہیں ہوتا عدالت میں کھڑی رہوں گی۔جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں کو اصل حقائق نہ بتانے کے پیچھے چھپی منطق سمجھ نہیں آتی۔


ریاست مرے گی یا نہیں؟
عبدالوحید مراد

لاپتہ افراد کا مسئلہ پاکستانی خفیہ اداروں کی انسانیت دشمنی سمجھنے کے لیے بہت کافی ہے۔ عبدالوحید مراد ایک نجی ٹی وی میں رپورٹر ہیں اور اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں ہونے والے مختلف سیاسی،سماجی اورفوجداری مقدمات کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔موصوف کے دیگرافکاروخیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔یہ سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمات سے متعلق ہونے والی سماعتوں میں سے چند ایک کا احوال سناتے ہیں۔ججوں کے ڈائیلاگ اورلاپتہ افراد کے لواحقین کی حالت زار اِس طاغوتی نظام کے سامنے ’’عدل‘‘کی بے بسی ظاہرکررہے ہیں۔اور’’عدل‘‘بے بس کیوں نہ ہو کہ یہ بھی تو اسی طاغوتی نظام ہی کا ایک اہم ستون ہے۔اس نطامِ بد کا دوسرا اہم ستون’پارلیمان‘ہے۔اُس کے احوال بھی قوم کے سامنے ہیں کہ سینٹ کا چیئرمین بھی فوج اور خفیہ اداروں کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہوئے جھجکتا اورجان کی امان پاکرکہتا ہوا پایا جاتا ہے کہ ’’مجھے بھی لاپتہ کردیں گے‘‘۔اس نظام کے سارے ہی ’’ستون‘‘اپنی ہی ’’چھت‘‘کے وزن سے کانپ رہے ہیں۔سویہ’’چھت ‘‘مزید کتنی دیرظلم ،گھٹن اورکفر کا بوجھ اپنے ’خاکی کندھوں‘پر اٹھا سکتی ہے؟باذن اللہ بہت قریب ہے کہ جب یہ نظامِ بد اوراس کے محافظوں پشتی بانوں کی دراز رسی ‘اللہ پاک ایک ہی جھٹکے سے کھینچ ڈالیں گے،ان شاء اللہ۔[ادارہ]


لاپتہ افراد کا مقدمہ سننا، اور اسے رپورٹ کرنا بھی ایک مشکل کام ہے کیونکہ ججوں سمیت سب بے بس ہوتے ہیں,صرف لیکچر ہوتاہے یا ریمارکس دیے جاتے ہیں۔
جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تو عدالت کے روسٹرم پر آمنہ مسعود جنجوعہ اور وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام لاپتہ افراد کی جانب سے موجود تھے جب کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس ، پختون خوا، پنجاب کے سرکاری وکیل اور لاپتہ افراد کمیشن کے رجسٹرار بھی کھڑے تھے۔
عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کہ لاپتہ تاسف ملک سے حراستی مرکز میں اہل خانہ کی ملاقات کرانے کاحکم دیا تھا کیا ہوا؟۔سرکاری وکیل نے بتایاکہ ملاقات کرادی گئی ہے۔ تاسف ملک کے سسر نے عدالت کو بتایاکہ صر ف تین منٹ کی ملاقات کرائی گئی اور اس میں بھی چار گارڈزگنیں تانے کھڑے تھے، ہماری گفتگو بھی ٹیپ کی جارہی تھی، تاسف نے کہاکہ عدالت بلائے گی تو تب ہی کچھ بتا پاؤں گا۔وکیل کرنل انعام نے کہاکہ تین سال بعد تین منٹ کی ملاقات کرائی گئی۔
جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ یہ نازک معاملہ ہے، جب ہائیکورٹ میں تھا تب آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کی مرضی سے طے کیا گیا تھا کہ حراستی مراکز میں قیدیوں کی اہل خانہ سے ملاقات کے لیے طریقہ کارکیا ہوگا، احتیاطی تدابیر ضروری ہیں مگر ملاقات سہولت کے ساتھ کرائی جائے۔جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ ہم جاننا چاہیں گے کہ کس قانون کے تحت کس جرم میں زیرحراست ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے اس بارے میں رپورٹ بھی مانگی ہے۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ متعلقہ حکام سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر بھارتی جاسوس کو اہل خانہ سے ملاقات کے لیے سہولت فراہم کی جاسکتی ہے تو یہی سہولت اپنے شہریوں کے لیے کیوں فراہم نہیں کی جاسکتی؟وکیل کرنل انعام نے کہاکہ تاسف ملک کے کیس میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ایک میجر کا ٹرائل ہورہاہے اس کی پیش رفت رپورٹ طلب کی جانی چاہیے۔
عدالت نے دوسرے لاپتہ عادل خان کے مقدمے میں سرکاری وکیل سے پیش رفت کا دریافت کیا تو بتایا گیاکہ چودہ نومبر دوہزار آٹھ کو پشاور ہائیکورٹ نے حکم دیا تھا جس پر انکوائری میں معلوم ہواکہ صرف لاپتہ ہے اور کسی پر کوئی الزام عائد نہیں کیاگیا، تمام ایجنسیوں کو دوبارہ لکھاگیاہے جواب کا انتظار ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اب ایسی صورتحال میں کیا کریں؟آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ یہ ان سرکاری وکیلوں کا معمول ہے،لاپتہ افراد کمیشن بھی ایسے ہی کام کررہاہے،سات سال ہوگئے عادل خان کے مقدمے کو بھی۔ پورے ملک میں لاپتہ افراد کے ورثاقطاروں میں لگے ہوئے ہیں، کمیشن میں سات ماہ بھی ایک کیس کی باری آتی ہے،انصاف دینے کاکمیشن کا یہ تیس سالہ منصوبہ ہے۔لوگ اذیت کا شکار ہیں ان کے مسئلے حل کرنے کا یہ طریقہ نہیں۔
عدالت میں لاپتہ مدثراقبال کے مقدمے کا نمبر پکارا گیا تو جسٹس دوست محمد نے سرکاری وکیلوں سے پوچھاکہ جے آئی ٹی اور دیگر کی رپورٹس میں تضاد کیوں ہے؟ دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر پوچھا کیوں نہیں گیا کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ؟آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ اقوام متحدہ کے جبری لاپتہ کیے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مدثر اقبال کسی خفیہ ادارے کے سیل میں ہے۔سرکاری وکیل نے کہاکہ مدثر اقبال کے حوالے سے رپورٹ دی جاچکی ہے اور خفیہ ایجنسیاں اس کی موجودگی سے لاعلمی ظاہرکرچکی ہیں۔ جسٹس دوست نے کہاکہ عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ جوڈیشل ریکارڈ بن چکی ہے، کل کو اگر مدثر اقبال کا فوجی عدالت میں




ظلم سہنا بھی ظلم ہوتا ہے!
طلحہ سحر

اے وارثانِ ممبر و محراب!اے صاحبانِ جبہ و دستار !
اے میدان سیاست کے شہہ سوارو! اے گورنری، وزارتِ اعلیٰ کے طلب گارو!
اے اسلام کے نام پر ووٹ لینے والو ملاؤ!اے مذہب کے نام نہاد ٹھیکےدارو !
اے اہل سنت کے بزعم خودرہبرو راہنماؤ!اے مساجد مدارس میں اپنے چندے کی حنگ لڑنے والو !
اےاہلِ حق کے گدی نشین بننے والو!
اے زینب کی مظلومانہ شہادت پر انسانیت، مظلومیت کے مگرمچھی آنسو بہانے والو !!
شہرِ کراچی میں سنی نوجوانوں کو خاک وخون میں تڑپایا جارہا ہے …اہلِ سنت کی بدترین نسل کشی کی جارہی ہے…باطل قوتوں کی خوش نودی کے لیے اہلِ حق کے سر کچلے جارہے ہیں… تمام ظالم،جابر ،قاتل بھیڑئے نما درندے اپنے تیروں سے امت مسلمہ کہ غیور جوانوں کے سینوں کو چھلنی چھلنی کررہے ہیں …یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں چھپےخوں خوارجانور اپنے ناپاک پنجے اہل سنت طبقہ کے سینوں میں پیوست کررہے ہیں …آنسوں ہیں جو خشک نہیں ہورہے…آہیں اور سسکیاں ہیں جو دب نہیں رہیں ظلم جو بڑھتا جارہا ہے…اہلِ سنت کے بچے یتیم ہورہے ہیں…مائیں ہیں جو بچوں کو تکالیف اٹھا کرپیدا کرتی ہیں اورہڈیاں گھُلا کرپرورش کرتی ہیں،آج اُنہیں آہوں اور سسکیوں کی چھاؤں میں دفنا رہی ہیں…
ارے گلیاں ہیں جو اہلِ سنت کے خون سے رنگین ہورہی ہیں…ایران اور شیعہ کی خوش نودی کی خاطرتمہاری مقتدیوں کو مارا جارہاہے…سہاگنوں کے سہاگ اجاڑے جارہے ہیں… ظلم کے طوفان برپا کرکے قہر خدا کو دعوت دی جارہی ہے… 
مگر تم سب خاموش، تمہارے ماتھوں پرایک بھی شکن نہیں،تمہاری کاٹنوں پر ایک سلوَٹ نہیں،تمہارے جبہ دستار میں ایک بھی خم کم نہیں!ارے کچھ تو بولو !تمہارے کارکن ناسہی انسان تو ہیں!تمہاری جماعت سے نہیں مگر اہلِ سنت میں سے تو ہیں…ذرا آنکھیں کھولو اور دیکھو کیسے انسانیت کی تذلیل ہورہی ہے!سیکڑوں زینب روزانہ شفقت پدری سے محروم، یتیمی کی چادر اوڑھ رہی ہیں مگر تم سب خاموش !!!
بہنوں کا سہارا چھینا جارہاہے اور تمہارے چپ کے روزے نہیں ٹوٹ رہے…بوڑھے والدین کے نازک کندھوں سے ان کی بیساکھیاں توڑ کر انہیں زندہ لاشہ بنایا جارہا ہے مگر تم سب خاموش !!!
سنو!! سنو!!یہ مجرمانہ خاموشی عنداللہ قابل قبول نہیں ہوگی!تمہاری مصلحتیں قبول نہیں ہوں گی… ظلم دیکھ کر سن کر بھی خاموش رہنا ظلم ہے ،ظالموں کا ساتھ دینے کے مترادف ہے …میں ایک عام مسلمان ہونےکی حیثیت سے جھولی پھیلا کر اپنا سر آپ کےاکابری پاؤں میں رکھ کر یہ التجا کرتاہوں کہ آؤ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کٹتی امت کادرد محسوس کرواور اس بوڑھی ماں کی آہ وبکا سنو،جس کےلعل کو آج خونی رنگ میں رنگ کر لال کردیاگیاہے …آؤآج ان بہنوں کی سسکیاں سنو جن کوبھائی کی تڑپتی لاشیں تحفے میں دی جارہی ہیں …
آؤ اُس سہاگن کے درد کو محسوس کرو جو اپنے سر پر بیوگی کی تلوار لٹکائے ،اپنے اجڑے آنگن میں جھولی پھیلا کر انصاف مانگ رہی ہے…آؤ ان بچوں کی بِلکتی آوازیں سنو جو ماں کی گود میں بیٹھ کر اپنے کھلونوں کا انتظار کررہے ہیں …
آؤ!رہ نماؤ …آؤمیرے لیڈرو!کچھ تو بولو !!!
قبل اس کے کہ آواز بھی چھین لی جائے…اگر آج ہم خاموش ہیں تو کل اسی آگ میں ہم بھی جھُلس کر دھوا بن جائیں گے…ارے اور کتنی لاشوں کے گرنے کا انتظار کروگے… ارے ظلم بس ظلم نہیں ہوتا …ظلم سہنا بھی ظلم ہوتاہے ناداں!
٭٭٭٭٭

نوائے افغان جہاد جمادی الاول۱۴۳۹ھ جنوری۲۰۱۸




علاج کچھ اس کا بھی اے چارہ گراں! ہے کہ نہیں؟
وثیق الرحمٰن

آئین پاکستان کے بعد ملک کی سب سے اہم دستاویز پاکستان کےتمام مسالک کے ممتاز ترین علمائے کرام نے متفقہ طور پر فتویٰ دے دیا۔
دستاویز پاکستان میں درج سوالات : 
پاکستان کیا ایک مکمل اسلامی ریاست ہے یا نہیں؟
مسلمان ریاست میں پرائیویٹ جہاد ہو سکتا ہے یا نہیں؟
خودکش حملے جائز ہیں یا نہیں؟
کسی کو کافر قرار دینے کا اختیار کس کو ہے، کس کو نہیں؟
پوچھے گئے سوالات کے جوابات پر مشتمل فتوے پر ملک کے ممتاز ترین علمائے کرام نے متفقہ طور پر دستخط کر دئیے۔ تفصیلات کے مطابق ملک کے ممتاز ترین علمائے کرام نے متفقہ طور پر ایک فتوے پر دستخط کر دئیے ہیں ۔ یہ فتویٰ ان جوابات پر مشتمل ہے جن میں ان سے سوالات کئے گئے تھے۔سلیم صافی کا کہنا تھا کہ ملک کے ۱۸۲۹علمائے کرام جو مختلف مسالک سے تعلق رکھتے ہیں نے متفقہ طور پر ان سوالات کے جوابات پر مشتمل فتویٰ پر دستخط کئے ہیں۔جب کہ اس فتوے میں مولانا لدھیانوی اور علامہ امین شہیدی کے بھی دستخط ہیں۔ فتوے کا جواب اور متفقہ اعلامیہ جن علما اور مفتیوں نے تیار کیا ہے ، ان میں مفتی منیب الرحمان اور مفتی رفیع عثمانی بھی شامل ہیں، یعنی کہ جید علمائے کرام نے مسالک اور مدارس کے تمام بورڈز کے نمائندے شامل کر کے ان پانچ سوالوں کا جواب دیا ۔یہ متفقہ اعلامیہ اور متفقہ فتویٰ ہے جس کوآئین پاکستان کی تشکیل کے بعد ایک بہت بڑی اور اہم آئینی دستاویز اور بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے ،اس فتویٰ کو ایک کتاب کی شکل دی گئی ہے ، اس کتاب کو آج یعنی۱۶جنوری ۲۰۱۸ءکو ایوان صدر میں ہونے والی ایک تقریب میں صدرمملکت کی موجودگی میں لانچ کیا جائے گا، جب کہ اس کتاب میں ممنون حسین کی جانب سے پیش لفظ لکھا گیا ہے ۔
یہاں تک کی خبر سے تو ہر بندہ واقف ہوگیا ہوگا۔ جو لاعلم ہیں وہ پڑھنے کے بعد جان جائیں گے۔ دستاویز پاکستان پر دستخط کرنےوالے علمائےکرام سے بھی چند ایک سوالات ہیں ، جیسے سرکاری ’’سوالات‘‘کے جواب میں ایک مبسوط دستاویز تیاربناڈالی گئی،امید ہے ویسے ہی ان سوالات کا جواب بھی مرحمت فرمایا جائے گا۔
کیا ڈرون حملے جائز ہیں؟؟
کیا قبائلی عوام کا سینہ چھلنی کرنا جائز ہے؟
کیا ملکی سالمیت کا سودا کرنا جائز ہے؟
کیا فحاشی وعریانی کے خلاف احتجاج کرنے والی طالبات کو اُن کی جامعہ اورمسجد سمیت جلا کر بھسم کردینا جائز ہے؟
کیاسودی معیشت کوناگزیرقراردے کر’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلسل برسرِجنگ رہنا‘‘جائز ہے؟
کیا ریاستی سطح پر سیکولرازم رائج کرنے کے عزائم کوعملی جامہ پہنانا جائز ہے؟
کیا کفار کافرنٹ لائن اتحادی بن کرلاکھوں مسلمان بھائیوں کوقتل کرنا جائز ہے؟
کیامالاکنڈ ڈویژن اور قبائل میں ہزاروں مساجدومدارس ، بازاروں ،ہسپتالوں اورجیتی جاگتی آبادیوں کو کارپٹ بم باریوں سے تباہ کردینا جائز ہے؟
کیا پرائی جنگ میں اپنے بندے مارنا جائز ہے؟
کیا بیٹیاں بیچنا جائز ہے؟؟
کیا اخروٹ آباد میں غریب الدیار مہاجر اور’’اللہ اللہ‘‘کی دُہائیاں دیتی خواتینِ اسلام کو گولیوں سے بھون ڈالنا جائز ہے؟
کیا مساجد، مدارس کا تحفظ پامال کرنا، جوتوں سمیت گھسنا، ۵ہزار ماہانہ لینے والے کو تنگ کرنا جائز ہے؟
کیا نہتے مظلوموں پر گولیاں چلانا جائز ہے؟
کیا جیلوں سے نکال نکال کر شہید کرنا، ماورائے عدالت قتل جائز ہے؟
کیا گستاخ رسول کو تحفظ دینا جائز ہے؟
کیا مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنا جائز ہے؟
کیا ملک و قوم کے دشمن کو معاف کر دینا جائز ہے؟
کیا بے گناہ لوگوں کو ۱۸ سال جیل میں رکھنا جائز ہے؟
فہرست تو بہت طویل ہے لیکن اِنہی سوالات کا جواب مل جانا ہی غنیمت ہے۔امید ہے مفتیانِ کرام ‘سائل کوشرعی ودینی احکامات کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں گے۔
سائل
وثیق الرحمٰن

نوائے افغان جہاد جمادی الاول۱۴۳۹ھ جنوری۲۰۱۸




ماتم نہیں انتقام!
حسیب احمد

ہمارا مزاج ماتمی نہیں ہے ہاں ہم بے رحم اور سنگ دل بھی نہیں مگر ہم انتقام لینا جانتے ہیں ہماری تاریخ بزدلی کی تاریخ نہیں ہماری تاریخ ہمت و جرت کی تاریخ ہے ہم اپنی عزت کو اہمیت دینے والے لوگ ہیں ہمیں اپنی عزت کے لیےجان لینا بھی آتی ہے اور جان دینا بھی
حدثنا محمد بن المثنى،ومحمد بن بشار واللفظ لابن المثنى،قالا:‏‏‏‏حدثنا محمد بن جعفر،حدثنا شعبة،عن هشام بن زيد،عن انس بن مالك،ان يهوديا قتل جارية على اوضاح لها فقتلها بحجر،‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فجيء بها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وبها رمق،فقال لها:‏‏‏‏ اقتلك فلان؟ فاشارت براسها ان لا،ثم قال لها:‏‏‏‏الثانية،‏‏‏‏‏‏فاشارت براسها ان لا،‏‏‏‏‏‏ثم سالها الثالثة،فقالت:‏‏‏‏نعم واشارت براسها،‏‏‏‏‏‏فقتله رسول الله صلى الله عليه وسلم بين حجرين
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک یہودی نے ایک لڑکی کو مارا، چند چاندی کے ٹکڑوں کے لیے، تو پتھر سے اس کو مارا۔ وہ لائی گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، اس میں کچھ جان باقی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”تجھ کو فلاں نے مارا ہے؟“اس نے اشارہ کیا سر سے نہیں، پھر فرمایا: ”فلانے نے مارا ہے؟“اس نے اشارہ کیا سر سے نہیں، پھر تیسری بار پوچھا تو اس نے کہا: ہاں اور اشارہ کیا پنے سر سے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کو بلوایا، اس نے اقرار کیا) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قتل کیا، دو پتھروں سے کچل کر۔
جی ہاں یہی ہماری تاریخ ہے!
ہاں ہاں مجھے وہ ظالم حجاج بن یوسف ثقفی بھی یاد ہے کہ جس نے ایک بیٹی کی پکار پر اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو ہندوستان روانہ کر دیا تھا !
ہاں ہاں مجھے معتصم بھی یاد ہے کہ جو ایک مسلمان بہن کی فریاد پر مسیحی سلطنت کے سر پر فوج لے کرجا پہنچا تھا!جی ہاں یہی ہماری تاریخ ہے!
اب جب کہ ہماری زینب مضروب ہے…اس کابے جان لاشہ فریاد کر رہا ہے،تو میں دیکھ رہا ہوں کہ اچھے بھلے مرد بڑے غمگین ہیں…آنسو ہیں کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے…کسی کا کھانا بند ہے تو کسی سے پانی نہیں پیا جا رہا…اور کچھ تو شاید کل سے سانس لیے بغیر زندہ ہیں
اور میں اس ماتمی فضامیں کوئی ایمان والا ڈھونڈ رہا ہوں…ہمارے بڑے بتلاتے ہیں کہ جب تقسیم کا غلغلہ تھا اور پورے ہندوستان کے مسلمان اپنی جانیں اور عزتیں بچا کر ہجرت کی کوششوں میں مصروف تھے ایسے میں ریاست ٹونک کے مسلمان اطمنان کے ساتھ تھے … جی ہاں ایک ایسی ریاست کہ جہاں ہندؤوں کی اکثریت تھی مگر حکومت مسلمانوں کی تھی… جی ہاں وہاں کے مسلمانوں نے انتہائی اطمنان کے ساتھ ہجرت کی جانتے ہیں کیوں …کیونکہ ہندوؤں کو اس وقت بھی وہ شکست یاد تھی کہ جو راجپوتوں کو پٹھانوں کے ہاتھوں ہوئی تھی…جان لیجیے آپ کی قوت ماتم میں نہیں انتقام میں ہے!
ایک لمحے کو نہیں آتا مرے دل کو سکون
لمحہ لمحہ بڑھ رہا ہے آج تو مجھ میں جنون
قتل اپنے ہاتھ سے جب تک نہیں کرتا انہیں
چین سے سونے نہیں دے گا مجھے زینب کا خون
٭٭٭٭٭
نوائے افغان جہاد جمادی الاول۱۴۳۹ھ جنوری۲۰۱۸




کون ہیں منٹو جیسے غلاظت سے لتھڑے افسانوں کی تعریفیں کرنے والے ؟ کون ہیں وہ بھیڑیے جو سرعام اسلامی سزاؤں کو برا کہتے ہیں ؟کون ہیں وہ بھیڑیے جو سرعام اسلامی سزاؤں کو صبح سحری میں چھپ کر دینے کی دہائی دیتے ہیں ؟کون ہیں وہ بھیڑیے جو ان سزاؤں میں رکاوٹ بنتے ہیں ؟ ان چار درندوں کو سرعام کیوں نہیں لٹکایا جائے گا ؟ صرف اس لیے کہ لبرل بھیڑیے ناراض ہو جائیں گے ؟
کیا ممنون حسین کو یا کسی بھی صدر کو حق حاصل ہے کہ پانچ پانچ سال پھانسی کی سزا معطل رکھیں ؟اس ملک میں پانچ پانچ سال سزا قصاص کیوں معطل رہی کہ تمہارا انگریز آقا تم سے ناراض ہو جائے گا ؟ یہ سب دھندے تمہاری نظروں سے اوجھل ہیں کیا ؟ ان دھندہ زدہ بھیڑیوں سے منہ چرانے کی آخر وجہ کیا ہے ؟
باقی تو نظام ہی کٹھ پتلی ہے اصل حاکم تو یہاں فوج ہے تو باجوہ سانپ سے سوال بنتا ہے کہ آخر کب تک ؟آخر کب تک ؟
٭٭٭٭٭
نوائے افغان جہاد جمادی الاول۱۴۳۹ھ جنوری۲۰۱۸


مجرموں کی نرسریاں
محمد احمد جمشید

ہماری ریاست ،ہمارا تعلیمی نظام ، ہمارا میڈیا مجرموں کی نرسریاں تیار کرتا ہے ۔ایک اور سات سالہ معصوم سی کلی ‘جنسی درندوں کے ہاتھوں بھنبھوڑ دی گئی ہے ۔ نہ یہ پہلی درندگی ہے اور نہ ہی اسے آخری کہا جا سکتا ہے ۔
درندگی اور اسباب درندگی ، ذرا بعد میں دیکھتے ہیں۔میں پہلے اس بچی پہ بیتنے والے مظالم سامنے رکھتا ہوں۔یہ محض سات سالہ پروان چڑھتی زینب انصاری بنت امین انصاری کی تصویر ہے ۔اس کے امی اور ابو دونوں عمرے کی ادائیگی کو گئے تھے ۔ اس معصوم کلی کو گھر سے چار درندے اٹھا کر لے گئے ۔ پہلے اس معصوم کلی کو بھنبھوڑتے رہے ۔ معلوم نہیں آسمان کیسے تھم گیا ؟ معلوم نہیں زمین پھٹنے سے کیسے رہ گئی ؟
درندگی کی ہوس نے اس بار درندگی سے بھی ایک قدم آگے رکھا ۔ بعد از درندگی اس معصوم بیٹی کو قتل کر کے جھاڑیوں میں پھینک دیا گیا ۔ میں نوحہ گر ہوں ، میں بھی بہنوں ، بھتیجیوں ، بھانجیوں ، والا ہوں ۔ لیکن میں آج ستم گری کی وجہ بھی بتاؤں گا ۔
آرمی چیف ،وزیر اعظم ،چیف جسٹس !
یہ ایک سال کے دوران تقریبا دسواں واقعہ رپورٹ ہوا ہے ۔اس کی وجہ کیا ہے ؟ تو جناب اس کی وجہ آج کا دجالی میڈیا ہے ، اس کی وجہ انٹر نیٹ پہ فحش کاری کا ایک وسیع کاروبار ہے۔اس کی وجہ ہماری تعلیمی نظام میں تربیت کا نہ ہونا ہے اس کی وجہ بہنوں ، بیٹیوں ، ماؤں کی تقدیس پہ مبنی لٹریچر کا نہ ہونا ہے۔اس کی وجہ ریاست کا سیکولر بیانیہ ہے۔ جس میں شخصی زندگی کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے جو چاہے کرتا پھرے ۔تم نے ’’انسدادِدہشت گردی‘‘کے نام پرمدراس ومساجد پر قدغنیں لگائیں،سیکولرطبقے نے لفظ مولوی کو تشنیع وتضحیک کا نشانہ بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا،تمہاری ناک کے نیچے ملحدیں مساجد ومدارس اورعلماوحفاظ کے خلاف پروپیگنڈے کرتے رہے اوراُنہیں ’’جنسی بھیڑیوں‘‘جیسے القابات دیتے رہے…تم نے ان ملحدین اوراپنے آقاؤں کے اشاروں پر مساجد ومدارس کاناطقہ بند کردیا…اب میں بتاؤں کہ بچوں کو بچیوں کو ڈراموں میں ، فلموں میں کون بتلاتا ہے کہ لڑکی ، لڑکا چھپ کر کیسے دوستی لگاتے ہیں ؟ دھندے کون بتلاتا ہے ؟ کون بتلاتا ہے کہ چھپ کر ڈیٹ کیسے مارنی ہے ؟ کون بتلاتا ہے کہ ماں باپ سے چھپ کر دھندہ رچایا جاتا ہے ؟ کون بتلاتا ہے کہ دھندہ رچانے کہاں کہاں جایا جاتا ہے؟شہوت کوبڑھاوا دے کرکون ابھارتا ہے ؟ڈراموں،فلموں، اشتہارات اور پروپیگنڈے کے ذریعے پورے معاشرے کو جنسی ہیجان کون مبتلا کیے ہوئے ہے؟ پھر مظلومیت کا رونا رو کر ریٹنگ اور شہرت کون حاصل کرتا ہے ؟ کیا یہی دجالی میڈیا نہیں ہے ؟
لیکن کیا اس لیے اس کے جرائم معاف ہیں کہ یہ تمہاری کی ہاں میں ہاں ملائے جاتا ہے ؟
جنرل باجوہ ایسی درندوں کو کیسے انصاف کے کٹہرے میں لائے گا کہ یہ جس فوج کی سرپنچ ہے وہ فوج بنگال سے سوات تک جنسی جرائم کی ایک مستقل تاریخ رکھتی ہے!ڈاکٹر شازیہ کی عزت کس نے تار تار کی؟ڈاکٹر عافیہ کی ناموس کاسودا کس نے کیا؟کئی لاکھ بنگالی مسلمان بہنوں کے عصمتوں سے کن حیوانوں نے کھلواڑ کیا؟سوات کی مسلمان بہنوں کی عصمت دریاں کرکے اُن کی برہنہ لاشوں کو ہیلی کاپٹروں سے کس نے پھینکا؟وزیرستان اور قبائل کے ’’آئی ڈی پیز‘‘کی بستیوں سے سیکروں جوان بچیوں کوکون اٹھا کرلے گیا؟جامعہ حفصہ کی ہزاروں عفت مآب طالبات کن کے خفیہ عقوبت خانوں میں اپنے گوہرِعصمت سے محروم کی جارہی ہیں؟جنرل باجوہ!اب زینب کے سانحے پریہاں ہیروبننے آئے ہو!
سوال تو یہ ہے کہ تمہیں اگر اتنا ہی درد ہے تومعصوم کلیوں کو بھنبھوڑنے کا ماحول بنانے والے آج بھی کیوں آزاد ہیں ؟ نیم برہنہ شہوت انگیز لباس میں کنسرٹ کون کرواتا ہے ؟
ننگ دھڑنگ ماحول کو کون ثقافت قرار دیتا ہے ؟
اے حاکمانِ وقت!ملک میں سادگی سے شادی کے قوانین بنانے میں کون کون سے بھیڑیے ہیں جو رکاوٹ بنتے ہیں اور کہتے ہیں یہ انفرادی معاملہ ہے ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ؟ سیکولر ریاست کا بیانیہ کس کس بھیڑیے کا ہے ؟ ان بھیڑیوں کو ٹی وی چینلز پہ کون لاتا ہے کون پروموٹ کرتا ہے ؟ اخباروں ، رسالوں میں نیم برہنہ تصویریں آرٹ کے نام پہ کون چھاپتا ہے ؟ صنف نازک کے اعضاکی نمائش کون کرتا ہے ؟ کبھی ڈالر خوری سے فرصت پاکرخبر لی تم نے ؟
کیا صاف دکھائی نہیں دیتا کہ المیوں کی تاریخ میڈیا کی آزدی کے بعد عروج پہ پہنچی ؟ زینب کا ریپ اور قتل ایک رات میں پلنے والا حادثہ ہے کیا ؟کیا حادثے ایک رات میں پروان چڑھتے ہیں ؟ حادثوں کے پالنہار کون ہیں ؟ کیوں ہیں اور کب تک رہیں گے ؟ آخر کب تک؟ فحش نگاری و فحش کاری کو یہاں فن کیوں کہا جاتا ہے ؟ اس فن کی تشہیر کیوں ہے ؟ اس فن کے پالنہار آزاد کیوں ہیں ؟ کون ہیں وہ بھیڑیے جو فحش نگاری کو نصاب کا حصہ بناتے ہیں ؟کون ہیں جو فحش افسانوں کو نصاب میں داخل کرتے ہیں ؟




بظاہرتومجرم سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں لیکن حقیقت میں پورے معاشرے کے حقوق نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ مجرم پر شفقت تو کرتے ہیں لیکن جرم سے متاثر شخص کو بھول جاتے ہیں، وہ سزا کو دیکھتے ہیں لیکن مجرمانہ گھٹیا حرکت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
ان سزاؤں سے اللہ تعالی کے عدل و انصاف اور اس کی حکمت كا پتہ چلتا ہے؛ کیونکہ یہ سزائیں مفادِ عامہ کے حصول اور امن و امان برقرار رکھنے کی ضامن ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ[البقرة : ۱۷۹]
’’اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘۔
یعنی ہمہ قسم کی زندگی ہے، چنانچہ معصوم جانوں کو زندگی بخشی اس کے لیےمعصوم جانوں کا قتل حرام قرار دیا۔املاک کو زندگی بخشی اس کے لیےکسی کا حق غصب کرنے سے روکا۔عزت وآبرو کو زندگی بخشی کہ ہتک عزت حرام قرار دی۔
حدود اللہ شریعت کا حصہ ہیں، ان کی وجہ سے ہر شخص کی انفرادی خوشیوں کو تحفظ ملتا ہے۔اور پورے معاشرے میں امن و امان قائم ہوتا ہے، لہذا احکاماتِ الٰہی پر چلنے والوں کو حدود اللہ کی وجہ سے مستحکم اور پر سکون زندگی ملتی ہے۔حدود اللہ کی وجہ سے معاشرے کو طیش مزاج لوگوں اور گھٹیا حرکتوں سے تحفظ ملتا ہے، کینہ پرور لوگوں کی دسیسہ کاریوں کے لیے راستے بند ہوتے ہیں، اور انتہا پسند فکر زمین دوز ہوتی ہے، منحرف لوگوں کو راہِ اعتدال ملتی ہے، جس سے خطرات و خدشات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔
حدود اللہ کو شریعت کا حصہ اس لیے نہیں بنایا گیا کہ دل کی بھڑاس نکالی جائے ، انتقام لیا جائے، اور مجرموں کو اذیت دی جائے۔بلکہ حدود اللہ کے مقاصد اور اہداف بہت عظیم ہیں۔ان مقاصد میں یہ شامل ہے کہ : پورے معاشرے کے لیےبڑے اہداف حاصل کیے جائیں اور وہ ہیں: دین، جان، عقل، مال اور عزت آبرو کی حفاظت۔
حدوداللہ اصل میں جرائم کی جانب مائل لوگوں پر رحمت و شفقت کا اظہار ہیں۔حدود اللہ کے ذریعے انہیں جرائم سے روکا جاتا ہے، چنانچہ سزا دیکھ کر مجرم اپنے ارادے تبدیل کر لیتے ہیں۔ حدود اللہ کی وجہ سے جرائم پیشہ لوگوں کیساتھ ساتھ دیگر لوگوں کو بھی جرائم سے دور رہنے کا سبق براہِ راست ملتا ہے۔
امت کے حالات قابو میں رکھنے کے لیےحدوداللہ کا نفاذ اصل میں مجرموں کے ساتھ رحمت و شفقت ہے،تبھی تو تعمیر و ترقی کا پہیہ رواں دواں رہے گا، اور بدعنوان و شر انگیز عناصر کو اپنے انجام کا بھی علم ہو گا۔
جن لوگوں کو مجرم کے جرم سے دلی صدمے پہنچے ہوتے ہیں انہیں حدود اللہ کے نفاذ سے قلبی سکون ملتا ہے۔نیز جرائم سے متاثر ہونے والے لوگوں میں دہشت کی جگہ امن و سکون سرایت کر جاتا ہے۔
اے پاکستان کے باعزت شہریوں! اٹھیے اپنے دین کی حقانیت کو پہچانیے اور شرعی حدود کے عالمگیر فوائد کو قلب و ذھن میں مستحضرکیجیے۔ حدود اللہ کے نفاذ سے اللہ تعالی کی طرف سے برکت، فضل، اور خیر و بھلائی حاصل ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ[الأعراف:۹۶]
’’اگر بستی والے ایمان لائیں اور تقویٰ اختیار کریں تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیں‘‘
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ إِقَامَةُ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فِي بِلَادِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ۔
سیدنا عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنھماروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی ایک حد کا نافذ کرنا اللہ تعالیٰ کی زمین پر چالیس رات بارش ہونے سے بہتر ہے‘‘۔(إبن ماجہ )
٭٭٭٭٭

نوائے افغان جہاد جمادی الاول۱۴۳۹ھ جنوری۲۰۱۸


طرح مختاراں مائی کو انصاف فراہم کیا گیا! اسے بین الاقوامی سطح پراُس سپر پاور کی طرف سے’’عزت‘‘دی گئی جہاں ہر ۳ سیکنڈ میں دس عورتوں کی عصمت پامال کی جاتی ہے! ایسا انصاف جس نے این جی اوز کی آنٹیوں کو پاکستان میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ مغرب زدہ خواتین جو باقاعدہ مقاصد کے ساتھ آپ عوام کے درمیان پھل پھول رہی ہیں۔LGBT کی تحریک ان ایجنٹوں کے ذریعے سے ہی آپ کے گھروں تک میں داخل ہو چکی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اس صورت حال میں اب بھی ہماری عوام میں ایسے بھولے لوگوں کی کمی نہیں کہ جو اِن بے دین اورگمراہ حکمرانوں اور اسلام بے زارخائن جرنیلوں سے انصاف کی توقع رکھےہوئے ہیں۔ جن کے لیے شراب نوشی، زنا، بیٹیوں اور بیویوں کا تبادلہ کوئی معنی رکھتا ہی نہیں۔اس موقع پرجنرل باجوہ نے بھی اپنی ’’کردار‘‘اداکیا کہ وہ زینب کو انصاف دلائے گا! سبحان اللہ! کیا یہ وہی فوج نہیں، جس کے ایک افسر نے بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ زیادتی کی اور اس بے چاری بیٹی کی انصاف کے لیے کی گئی چیخ وپکار‘گونج بن کر فضامیں تحلیل ہو گئی۔ کیا یہ وہی فوج نہیں کہ جس نے جامعہ حفصہ کی سیکڑوں زینبوں کو فاسفورس بموں سے جلایا اور جامعہ کی معلمات و طالبات کو قید کیا جو ابھی تک ان کے عقوبت خانوں میں بند ہیں۔ یہ وہی فوج ہی تو ہے کہ جس نے سوات سے کئی ہزارعفت مآب خواتین کو لاپتہ کیا۔ جنہوں نے وزیرستان میں طاقت کا اندھا استعمال کر کے سیکڑوں عورتوں اور بچوں کو شہید کیا۔ اور سب سے بڑھ کر اس قوم پر جو کلنک کا ٹیکا لگایا، ڈالروں کے عوض اپنی بیٹی کو بیچا!
جو لوگ قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنی آزاد خیالی اور ترقی پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ دراصل یہ چاہتے ہیں کہ انسان اور حیوان کا امتیاز مٹ جائے اور انسان جانوروں کی طرح جو جی میں آئے کرتا رہے ۔وہ نظام کہ جہاں لوگ اپنے ماں باپ کو اولڈ ہاوس کے حوالے کر کے کتوں کی خدمت کو سعادت سمجھتے ہو، اپنے گھر کتے بلیوں کے ریوڑ پالتے ہوں لیکن انسانوں سے تعصب رکھتے ہیں، جب ہم ایسے لوگوں میں اپنی ترقی تلاش کریں گے تو ان کی طرح کا بگاڑ ہمارے معاشرے میں بھی آئے گا۔
؎یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت​
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات​
بیکاری و عریانی و مئے خواری و افلاس​
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات؟​
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟​
دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات​
جو لوگ زنا کی شرعی سزا سنگساری اور کوڑوں کے خلاف پروپیگنڈے کرتے ہیں ،ان کو اب تو سمجھ جانا چاہیے کہ قرآن کے بتائے قانون میں ہی انسان کی زندگی کا راز مضمر ہے ۔ اس طرح آئے روز ہونے والی درندگی میں قصور ہمارا ہی تو ہے!‏ہم نے گھر کاروبار نوکری تعلیم سیاست سمیت زندگی کے کسی شعبے میں اب تک مسلمان بن کر جینے کا فیصلہ ہی نہیں کیا۔‏
اے پاکستان کے سادہ لوح عوام! کیا اب وہ وقت آ نہیں گیا کہ آپ اس باطل نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ آپ کی عزتیں محفوظ نہیں، آپ کی جانیں ان لادین سیکولر گمراہ حکمران و جرنیلوں پر قربان ہو رہی ہیں۔ آپ کو عدل و انصاف کا مفہوم بھی یاد نہیں! مسئلہ اس نظام کا ہے!کیا وقت آ نہیں گیا کہ ہم حقائق کا سامنا کریں ، محض افراد کو قصور وار ٹھہرا کر مسئلے کی اصل جڑ سے سے آنکھیں نہ چرائیں۔ مسئلہ افراد کا نہیں! رذیل، بد طینت، بد کردار افراد تو مختلف تناسب سے ہر معاشرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ مسئلہ اس نظام کا ہے! اس نظام سے بغاوت اور برأت ہی اصل حل ہے!
؎لہو پر قرض ہوتی جارہی ہے
بغاوت فرض ہوتی جارہی ہے
شہید عالمِ ربّانی استاد احمد فاروق رحمہ اللہ اپنے بیان ’’پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!‘‘میں فرماتے ہیں
’’ مسئلہ اس نظام کا ہے جو ان رذیل ترین لوگوں کو معزز قوم پر مسلط کرتا ہے۔ جو حقیقی معززین کو ذلیل اور ذلیل و حقیر لوگوں کو معزز بناتا ہے۔ جب تک یہ باطل نظام جڑ سے نہیں بدلا جاتا، محض چہرے بدلنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا!اس نظام نے ہم سے ہماری آزادی چھینی ہے، ہمارے معاشروں پر سے علماکی گرفت کو توڑا ہے، ہمارے درمیان سے شریعت کو معطل کیا ہے، اور ہمیں فرنگی قانون ماننے پر مجبور کیا ہے‘‘۔
اسی طرح شہید کمان دان فرمان شنواری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اے پاکستان کے بے چارے عوام! کیا اب بھی وقت نہیں کہ ہم اپنے عظیم الشان عالمگیر دین اسلام کی حقانیت کو تسلیم کریں۔ متحد ہو کر شرعی حدود کے نفاذ کا پُرزور مطالبہ کریں‘‘۔
یہ بات کسی کے ذہن سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ نفاذِ شریعت اور احکامِ شریعت لاگو کرنے سے پوری امت افراتفری اور تباہی سے محفوظ ہوگی ، معاشروں میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا،اس کے لیےترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے والے بے وقوف ، مجرم اور فسادی طبع لوگوں کو روکنا ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے معاشرے کو سمندر میں چلتی ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ساحل تک پر امن انداز سے پہنچنا چاہتے ہو تو کشتی میں سوراخ کرنے والوں کو روکنا ہوگا۔
شرعی سزاؤں کے بارے میں زبان درازی کرنے والے

20 last posts shown.

817

subscribers
Channel statistics