عدالت نے ڈپٹی اٹارنی کو ہدایت کی کہ ایک ہفتے میں واضح جواب دیا جائے۔
اس کے بعد آمنہ مسعود جنجوعہ کے شوہر کے مقدمے کی باری آئی تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت میں سربمہر لفافے میں وزارت دفاع کی جانب سے میمورنڈم پیش کیا، بتایا گیا کہ یہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کا جواب ہے، اس کو سامنے نہ لایاجائے۔آمنہ مسعود نے کہاکہ یہ رپورٹ مجھے بھی دی جائے، کیا پڑھ کر جواب دینے کی اجازت دی جائے گی؟جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم ایسے نہیں ہٹیں گے، جو کچھ بھی کرسکے کریں گے، رپورٹ میں سے بین السطور پڑھتے ہیں۔ڈپٹی اٹارنی نے کہاکہ یہ رپورٹ مسعود جنجوعہ اور ان کے ساتھ لاپتہ ہونے والے فیصل فراز کے بارے میں ہےاسی دوران لاپتہ فیصل فراز کی والدہ عدالت میں بولیں کہ اس رپورٹ میں کیا ہے بتائیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ بی بی! انہوں نے رپورٹ فائل کی ہے۔ماں پھر بولی کہ یہ ہزار دفعہ رپورٹ دے چکے ہیں، بارہ سال سے ایسا کررہے ہیں، وقت گزاری کے لیےہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے کہا کہ یہ لوگ اس لیول پر یہ کر رہے ہیں۔ماں بولی کہ لیول کیاہے بیٹا، مجھے بتائیں ذرا۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ایسا نہیں ہے۔
لاپتہ عبدالرحمان کے مقدمے میں عدالت کو بتایا گیا کہ یہ دوہزار گیارہ میں غائب ہوا تھا، گزشتہ سال کمیشن سے رجوع کیاگیا، اس کے خلاف فیصل آباد میں مقدمہ درج ہے، جے آئی ٹی بھی بن چکی ہے۔
عدالت کو لاپتہ کے لواحقین نے بتایاکہ کمیشن پر اعتماد نہیں، سپریم کورٹ خود ہی مقدمات سنے ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم واقعاتی شواہد کو دیکھتے ہیں، وفاقی حکومت کے جواب کے بعد ہم اندھیرے میں بھٹک جاتے ہیں اس لیے کمیشن کو مقدمات بھیجتے ہیں، اس کے بعد کسی کو کمیشن پر اعتماد نہیں تو عدالت کے دروازے بند نہیں کرتے، اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیےموجود ہیں، یہاں آجائیں۔لاپتہ افراد کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل انعام الرحیم نے کہاکہ کمیشن ناکام ہو چکا ہے۔ڈپٹی اٹارنی نے کہاکہ ایسی بات نہیں، کمیشن کام کررہاہے۔آمنہ مسعود نے کہاکہ کمیشن کو سات سال ہوگئے، رپورٹ کو تالے لگا کر رکھتے ہیں، چند سو مقدمات تھے اب پانچ ہزار سے بڑھ گئے ہیں، کیا یہ ایک کاروبار ہے؟یہ ایجنسیوں پر ہے کہ وہ جب جس کو چاہتے ہیں رہاکردیتے ہیں،کمیشن کا کوئی کردار نہیں،یہ ویسے ہی کریڈٹ لیتے ہیں۔کمیشن تو پوسٹ آفس ہے۔عدالت ان والدین کو دیکھے جو مررہے ہیں، لوگو ں کو ملک کی سب سے بڑی عدالت سے توقعات ہیں، آج یہاں مہمند ایجنسی سے والدین آئے ہوئے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہمیں معلوم ہے کہ کیا ہوا ہے، مالاکنڈ میں شورش ہوئی، وہاں سے کچھ لوگ افغانستان چلے گئے، وہاں ان کے ساتھ کیا ہوا، یہ بھی ایک معاملہ ہے۔ دوہزار پانچ سے اب تک جو ہو رہا ہے۔عدالت اور کمیشن سمیت کوئی بھی پورے یقین سے کسی لاپتہ فرد کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، اگر ہم ایسا کوئی حکم جاری کردیتے ہیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔عدالت کے سامنے مکمل اور درست معلومات نہیں ہوتیں، ایسی صورت میں کوئی موثر حکم جاری نہیں کرسکتے۔عدالت اسی لیے ہے کہ ریاست کے ہر شہری کا تحفظ کرے۔
وکیل انعام الرحیم نے کہا کہ عدالت ان سے حراستی مراکز میں قید لوگوں کی فہرست تو طلب کرلے، کتنے لوگ ہیں، ان پر کیا الزامات ہیں؟سپریم کورٹ نے دوہزار چودہ میں ۳۵افراد کے بارے میں حکم جاری کیا تھا، ان کو حراستی مراکز سے ہی غائب کر دیا گیا مگر عدالت نے اپنے حکم پر عمل نہ کرایا۔( اس بات پر جج تلملا کر رہ گئے)۔
لاپتہ گل محیط خان کے بارے میں کمیشن کے سیکرٹری نے بتایا کہ پیش کے لیے حکم جاری کیا تھا، آئی ایس آئی اور ایم آئی سے رپورٹ بھی مانگی ہے۔اسی دوران ایک شخص عدالت میں کھڑا ہوا اور کہاکہ میرا نام سردار محمد صدیق ہے اور میرے بیٹے ڈاکٹر سہیل کو انیس دسمبر دوہزار سترہ کو اسلام آباد سے تحویل میں لیا گیا ہے، پولیس ہمارا مقدمہ درج نہیں کررہی، کہاجا رہا ہے کہ ایجنسیوں نے اٹھایا ہے اس لیے مقدمہ درج نہیں کرسکتے، میری اہلیہ دل کی مریضہ ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہمارے سامنے آپ کی درخواست نہیں آئی۔ابھی دفتر نے اس کو مقرر نہیں کیا۔
اسی دوران آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ یہاں دو لاپتہ جوانوں کے ماں باپ دونوں آئے ہوئے ہیں، ان کا مقدمہ آج نہیں لگا مگر یہ ہمارے سمجھانے کے باوجود سپریم کورٹ آ جاتے ہیں۔عدالت ہدایت جاری کرے کہ آئندہ سماعت پر ان کے بیٹوں کے مقدمے کو بھی سماعت کے لیےمقرر کیا جائے۔
(بزرگ میاں بیوی ایک دوسرے کو عدالتی کرسیوں کے سہارے کھڑے رہنے میں مدد کرتے رہے، اس بات سے بے خبر کہ آج ان کو نہیں سنا جائے گا،یہ الگ بات ہے کہ جب ان کا کیس مقرر بھی ہوتا ہے تب بھی کچھ نہیں ہوتا)۔
٭٭٭٭
نوائے افغان جہاد جمادی الاول۱۴۳۹ھ جنوری۲۰۱۸
اس کے بعد آمنہ مسعود جنجوعہ کے شوہر کے مقدمے کی باری آئی تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت میں سربمہر لفافے میں وزارت دفاع کی جانب سے میمورنڈم پیش کیا، بتایا گیا کہ یہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کا جواب ہے، اس کو سامنے نہ لایاجائے۔آمنہ مسعود نے کہاکہ یہ رپورٹ مجھے بھی دی جائے، کیا پڑھ کر جواب دینے کی اجازت دی جائے گی؟جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم ایسے نہیں ہٹیں گے، جو کچھ بھی کرسکے کریں گے، رپورٹ میں سے بین السطور پڑھتے ہیں۔ڈپٹی اٹارنی نے کہاکہ یہ رپورٹ مسعود جنجوعہ اور ان کے ساتھ لاپتہ ہونے والے فیصل فراز کے بارے میں ہےاسی دوران لاپتہ فیصل فراز کی والدہ عدالت میں بولیں کہ اس رپورٹ میں کیا ہے بتائیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ بی بی! انہوں نے رپورٹ فائل کی ہے۔ماں پھر بولی کہ یہ ہزار دفعہ رپورٹ دے چکے ہیں، بارہ سال سے ایسا کررہے ہیں، وقت گزاری کے لیےہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے کہا کہ یہ لوگ اس لیول پر یہ کر رہے ہیں۔ماں بولی کہ لیول کیاہے بیٹا، مجھے بتائیں ذرا۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ایسا نہیں ہے۔
لاپتہ عبدالرحمان کے مقدمے میں عدالت کو بتایا گیا کہ یہ دوہزار گیارہ میں غائب ہوا تھا، گزشتہ سال کمیشن سے رجوع کیاگیا، اس کے خلاف فیصل آباد میں مقدمہ درج ہے، جے آئی ٹی بھی بن چکی ہے۔
عدالت کو لاپتہ کے لواحقین نے بتایاکہ کمیشن پر اعتماد نہیں، سپریم کورٹ خود ہی مقدمات سنے ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم واقعاتی شواہد کو دیکھتے ہیں، وفاقی حکومت کے جواب کے بعد ہم اندھیرے میں بھٹک جاتے ہیں اس لیے کمیشن کو مقدمات بھیجتے ہیں، اس کے بعد کسی کو کمیشن پر اعتماد نہیں تو عدالت کے دروازے بند نہیں کرتے، اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیےموجود ہیں، یہاں آجائیں۔لاپتہ افراد کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل انعام الرحیم نے کہاکہ کمیشن ناکام ہو چکا ہے۔ڈپٹی اٹارنی نے کہاکہ ایسی بات نہیں، کمیشن کام کررہاہے۔آمنہ مسعود نے کہاکہ کمیشن کو سات سال ہوگئے، رپورٹ کو تالے لگا کر رکھتے ہیں، چند سو مقدمات تھے اب پانچ ہزار سے بڑھ گئے ہیں، کیا یہ ایک کاروبار ہے؟یہ ایجنسیوں پر ہے کہ وہ جب جس کو چاہتے ہیں رہاکردیتے ہیں،کمیشن کا کوئی کردار نہیں،یہ ویسے ہی کریڈٹ لیتے ہیں۔کمیشن تو پوسٹ آفس ہے۔عدالت ان والدین کو دیکھے جو مررہے ہیں، لوگو ں کو ملک کی سب سے بڑی عدالت سے توقعات ہیں، آج یہاں مہمند ایجنسی سے والدین آئے ہوئے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہمیں معلوم ہے کہ کیا ہوا ہے، مالاکنڈ میں شورش ہوئی، وہاں سے کچھ لوگ افغانستان چلے گئے، وہاں ان کے ساتھ کیا ہوا، یہ بھی ایک معاملہ ہے۔ دوہزار پانچ سے اب تک جو ہو رہا ہے۔عدالت اور کمیشن سمیت کوئی بھی پورے یقین سے کسی لاپتہ فرد کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، اگر ہم ایسا کوئی حکم جاری کردیتے ہیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔عدالت کے سامنے مکمل اور درست معلومات نہیں ہوتیں، ایسی صورت میں کوئی موثر حکم جاری نہیں کرسکتے۔عدالت اسی لیے ہے کہ ریاست کے ہر شہری کا تحفظ کرے۔
وکیل انعام الرحیم نے کہا کہ عدالت ان سے حراستی مراکز میں قید لوگوں کی فہرست تو طلب کرلے، کتنے لوگ ہیں، ان پر کیا الزامات ہیں؟سپریم کورٹ نے دوہزار چودہ میں ۳۵افراد کے بارے میں حکم جاری کیا تھا، ان کو حراستی مراکز سے ہی غائب کر دیا گیا مگر عدالت نے اپنے حکم پر عمل نہ کرایا۔( اس بات پر جج تلملا کر رہ گئے)۔
لاپتہ گل محیط خان کے بارے میں کمیشن کے سیکرٹری نے بتایا کہ پیش کے لیے حکم جاری کیا تھا، آئی ایس آئی اور ایم آئی سے رپورٹ بھی مانگی ہے۔اسی دوران ایک شخص عدالت میں کھڑا ہوا اور کہاکہ میرا نام سردار محمد صدیق ہے اور میرے بیٹے ڈاکٹر سہیل کو انیس دسمبر دوہزار سترہ کو اسلام آباد سے تحویل میں لیا گیا ہے، پولیس ہمارا مقدمہ درج نہیں کررہی، کہاجا رہا ہے کہ ایجنسیوں نے اٹھایا ہے اس لیے مقدمہ درج نہیں کرسکتے، میری اہلیہ دل کی مریضہ ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہمارے سامنے آپ کی درخواست نہیں آئی۔ابھی دفتر نے اس کو مقرر نہیں کیا۔
اسی دوران آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ یہاں دو لاپتہ جوانوں کے ماں باپ دونوں آئے ہوئے ہیں، ان کا مقدمہ آج نہیں لگا مگر یہ ہمارے سمجھانے کے باوجود سپریم کورٹ آ جاتے ہیں۔عدالت ہدایت جاری کرے کہ آئندہ سماعت پر ان کے بیٹوں کے مقدمے کو بھی سماعت کے لیےمقرر کیا جائے۔
(بزرگ میاں بیوی ایک دوسرے کو عدالتی کرسیوں کے سہارے کھڑے رہنے میں مدد کرتے رہے، اس بات سے بے خبر کہ آج ان کو نہیں سنا جائے گا،یہ الگ بات ہے کہ جب ان کا کیس مقرر بھی ہوتا ہے تب بھی کچھ نہیں ہوتا)۔
٭٭٭٭
نوائے افغان جہاد جمادی الاول۱۴۳۹ھ جنوری۲۰۱۸