الشیخ مقبل الوادعی


Channel's geo and language: not specified, not specified
Category: not specified


الشیخ مقبل الوادعی رحمة اللہ علیہ کے مقالات - فتاوٰی - رسائل اردو میں۔
اس چینل کو اہل السنہ کے بعض طلباء چلاتے ہیں۔
ابو محمد نظام

Related channels

Channel's geo and language
not specified, not specified
Category
not specified
Statistics
Posts filter




*شیخ مقبل الوادعی (رحمہ اللہ):*

#پوسٹر #اخوان_المسلمین

❞ مظاہرے (پروٹیسٹ) بدعت ہیں، بلکہ یہ زمانۂ حاضر کا ایک فتنہ ہیں جو اس دور میں پایا جاتا ہے۔ اور رسول الله ﷺ نے سچ فرمایا: "تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے۔ ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں؟ فرمایا پھر اور کون؟" (بخاری) ❝

https://t.me/shmuqbil/34

https://whatsapp.com/channel/0029VanPKpV90x31beqPWE1v/114




*🔹 کیا صحیحین کی حدیثوں کو صحیح قرار دینے سے پہلے دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے، یا حدیث کا صحیحین میں ہونا کافی ہے؟*

#فتوی #حدیث #جرح_و_تعدیل

جواب: حدیث کا صحیحین میں موجود ہونا کافی ہے۔ ابو الحسن المنذری، جن کا نام علی بن مفضل ہے، کہتے ہیں کہ: "شیخان (بخاری اور مسلم) نے جن راویوں کی روایت درج کی ہیں، وہ (حدیث کی صحت کے لحاظ سے) بیڑا پار کر گئے ہیں۔" البتہ کچھ ایسی حدیثیں بھی ہیں جن پر دارقطنی وغیرہ نے انتقاد کیا ہے۔ ابن صلاح کہتے ہیں: "صحیحین کی حدیثوں میں یقینی علم ہے، سوائے ان چند حدیثوں کے، جن پر بعض حفاظ نے انتقاد کیا ہے، جیسے دارقطنی وغیرہ۔" نیز، دارقطنی نے تقریباً دو سو حدیثوں پر انتقاد کیا، جن میں سے بعض صحیح ہیں اور بعض مردود۔

🔸*چنانچہ، حدیث کا صحیحین میں ہونا کافی ہے اور اس کی سند کو دیکھنے کی ضرورت نہیں، چاہے اس کی سند میں ایسے لوگ ہوں جن پر (بعض محدثین نے) کلام کیا ہو۔ ان حدیثوں کے بارے میں یہی سمجھا جائے گا کہ محدثین نے ان کی روایتوں کو بہت غور و خوض کے بعد منتخب کیا ہے، جیسا کہ امام بخاری نے اسماعیل بن ابی اویس اور خالد بن مخلد قطوانی کی حدیثوں کو منتخب کیا۔*

*معاصر لوگ دو قسم کے ہیں:*

1. *مجتہد علماء:* اگر وہ بعض حدیثوں کو ضعیف قرار دیتے ہیں، تو ہم ان کی بات رد نہیں کرتے، لیکن ان کا انکار بھی نہیں کرتے۔

2. *بدعتی لوگ:* جیسے
📌*محمد غزالی،*
📌*حسن ترابی،*
اور کچھ اخوان المسلمین جیسے
📌*یوسف قرضاوی،* اور ان سے پہلے
📌*جمال الدین افغانی،*
📌*محمد عبدہ مصری،*
📌 اور *محمد رشید رضا۔*

ایسے لوگوں کے دلوں میں سنت کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ یہ اپنی خواہش کے مطابق باتوں کو قبول کرتے ہیں، چاہے وہ اسرائیلی کہانیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ "المنار" (رشید رضا کی تفسیر) کو پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں تورات سے اسرائیلی قصے نقل کیے گئے ہیں۔ لیکن جو باتیں ان کی خواہش کے خلاف ہوں، چاہے وہ صحیح بخاری ہی میں کیوں نہ ہوں، وہ انہیں قبول نہیں کرتے۔

اسی طرح، شیعہ، جو کتب السنہ کے دشمن ہیں، بالخصوص صحیحین کے، اسی زمرے میں آتے ہیں۔ بلکہ بعض جاہل صوفیہ اور شیعہ کتب السنہ کو وہابی کتابیں کہنے سے بھی نہیں شرماتے۔ ان کے نزدیک
📕*"صحیح بخاری"،*
📗*"مسند احمد"،*
📘*"صحیح مسلم"،*
📙*"سنن ابو داود"،*
📔*"جامع ترمذی"،*

اور دیگر قدیم حدیث کی کتابیں وہابی کتب ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: *"لوگ پچھلے نبیوں کی باتوں میں سے یہ بات نقل کرتے ہیں کہ: اگر تمہیں شرم نہ آئے، تو جو چاہو کرو۔"*

پس، ایسے لوگوں کو صحیح بخاری کو "وہابی" کہنے میں کوئی شرم نہیں آتی۔
‼️ *بیوقوفو! محمد بن عبد الوہاب اور محمد بن اسماعیل بخاری کے درمیان کتنے سالوں کا فرق ہے؟!*

---

*ماخذ:*
شريط: (أسئلة شباب الطائف)

https://t.me/shmuqbil/33

https://whatsapp.com/channel/0029VanPKpV90x31beqPWE1v/113

https://www.muqbel.net/fatwa.php?fatwa_id=1384




تصویر کو جائز کہہ کر ان کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں جب شیخ مقبل کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا:

*"الحمد للّٰہ! نہ ہمیں اپنے خلاف جانے والوں کی پرواہ ہے، اور نہ ہی ہمارے موافق ہونے والوں کی۔"*


السلسلہ الادیبیہ ۳۷؃

#پوسٹر #تصویر

https://whatsapp.com/channel/0029VanPKpV90x31beqPWE1v/112

https://t.me/shmuqbil/32




شیخ مقبل الوادعی (رحمہ اللہ):

اخوان المسلمین مسئلہ امامت میں شیعہ، رائے میں معتزلہ اور لوگوں کو حکمرانوں کے خلاف خروج پر اکسانے میں خوارج ہیں۔

السلسلہ الادیبیہ
```۱۰۲؃```

#اخوان_المسلمین #ردود #پوسٹر #عقیدہ

https://whatsapp.com/channel/0029VanPKpV90x31beqPWE1v/110

https://t.me/shmuqbil/31








🔹 "لا إله إلا اللہ" کی تفسیر "لا حکم الا للہ" کرنے کا حکم

#فتوی #توحید #عقیدہ #اخوان_المسلمین

سوال: "لا إله إلا الله" کی تفسیر "اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی حاکم نہیں" سے کرنے والے پر کیا حکم ہے؟ وہ کہتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی بندگی والی آیات کا ذکر اللہ کے حکم کے ساتھ آیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ شیخ الاسلام کا کلام ہے۔

جواب: یہ تفسیر باطل ہے۔ حکم توحید الوہیت کا ایک حصہ ہے، ساری توحید الوہیت اسی میں نہیں ہے۔ قبروں کی عبادت کرنے والا بھی کفر کا مرتکب ہے، وہ توحید الوہیت کو نہیں مانتا۔ اسی طرح کاہنوں کی بات ماننے والا، نجومیوں کی بات ماننے والا بھی صحیح قول کے مطابق توحید الوہیت کو نہیں مانتا۔

اہم یہ ہے کہ یہ محض جزئی تفسیر ہے کیونکہ "اللہ کے علاوہ کسی کا حکم نہیں چلے گا" یہ توحید الوہیت میں شامل ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے علاوہ دوسرے قوانین سے فیصلہ کرتے ہیں، وہ درحقیقت موحّد نہیں ہیں۔ ﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ ﴾ (کیا ان لوگوں کے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں ایسے احکام مقرر کر دیے ہیں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟) (الشوری: ۲۱) لیکن سارا شرک "غیر اللہ سے فیصلہ کرانا" نہیں ہے، بلکہ اور بھی شرکیات موجود ہیں۔

من شريط : ( أسئلة السلفيين في العدين )

https://t.me/shmuqbil/26

https://whatsapp.com/channel/0029VanPKpV90x31beqPWE1v

مصدر: https://www.muqbel.net/fatwa.php?fatwa_id=677




🔹سوال: وہ کونسی کتابیں ہیں توحید پر اور شرک کے مقابلے پر، جن کو آپ پڑھنے کی نصیحت کرتے ہیں؟

#عقیدہ #توحید #فتوی

جواب: جن کی میں نصیحت کرتا ہوں، وہ ہے 'فتح المجيد شرح كتاب التوحيد' جن کے مصنف شیخ محمد بن عبد الوھاب کے پوتے ہیں۔ ایسے ہی، 'تيسير العزيز الحميد شرح كتاب التوحيد'، تو میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کے آپ ان دو کتابوں سے استفاده کریں۔ ایسے ہی 'تطهير الاعتقاد' الصنعانی کی، 'الدر النضيد' اور 'شرح الصدور في تحريم رفع القبور' بھی الشوکانی کی۔ بلکہ اگر یہ سب کتابیں نہیں، جو میں نے ذکر کی ہیں، تو 'فتح المجيد' بھی کافی ہے عقیدے کی تصفیہ کے لیے۔

اور کوئی کہنے والا کہ سکتا ہے کے: 'اس کا مولف تو وہابی ہے نجد سے؟' وہابی تُجھ سے بہتر ہے اے صوفی، اور وہ تُجھ سے بھی بہتر ہے اے شیعی!

وہابی اللہ کو پکارتے ہیں اور اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، میں تم سے یہ نہیں کہ رہا کہ تم وہابیوں کی تقلید کرو، بلکہ میں تمہیں کہتا ہوں کے تم کتاب اللّٰه اور سنت رسول اللّٰه ﷺ اور اُن کتب سے دلائل لو جن میں دلائل جمع کیے گئے ہیں۔

پس میں تمہیں کہتا ہوں کہ: تم حق کو اختیار کرو چاہے کوئی بھی اسے لیکر آئے ، اور جس کے بھی ہاں تم اسے پاؤ، بیشک قتیلۃ - رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
یہود نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا:
'إنكم تشركون إنكم تنددون تقولون : ما شاء الله ، وشاء محمد ، وتقولون : والكعبة'
' تم لوگ شرک کرتے ہو، تم کہتے ہو: ما شاء اللہ وشاء محمد (جو اللہ نے اور محمد نے چاها)، اور تم کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔'

تو نبی ﷺ نے فرمایا: 'قولوا ما شاء الله ثم شاء محمد ، وقولوا : ورب الكعبة'
' کہو: 'ما شاء الله ثم شاء محمد' (جو اللہ نے چاہا اور پھر محمد نے) اور کہو: کعبہ کے رب کی قسم۔'

یعنی آپ نے یہ اپنے صحابہ سے کہا اور آپ نے یہود کی نصیحت قبول کی، اور طفیل کی حدیث بھی ایسے ہی ہے۔

پس جو بھی حق لے کر آئے اس سے لیا جائے گا
اور ہمارے پرانے علماء جس کے پاس بھی حق ہوتا تھا اس سے لے لیتے تھے، بلکہ یمنی مصری کی طرف سفر کرتا، مکی بغدادی کی طرف، نیشاپوری یمنی کی طرف، وہ سفر کرتے تھے اور ایک دوسرے سے استفادہ حاصل کرتے تھے، اور آج کے علماء کی طرح نہیں تھے، الا وہ جن پر اللہ نے رحم کیا، بیشک اب علم سرکاری ہو گیا ہے۔

من شريط : ( قرة العين في أجوبة صاحب العدين)

https://t.me/shmuqbil/27




🔹 سوال: توکل اور استعانت (کسی سے مدد طلب کرنے) میں کیا فرق ہے؟

#عقیدہ #توحید #فتوی

جواب: اللّٰه تعالٰی پر بھروسہ اور معاملات اللّٰه تعالٰی کے سپرد کرنے کو توکل کہتے ہیں۔
اور استعانت (کسی سے مدد طلب کرنے) کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر آپ نے کسی شخص سے مدد طلب کی تو آپ نے اپنے معاملات اس شخص کے سپرد کر دیے، اگر آپ نے کسی شخص کو کسی درندے وغیرہ کو ہٹانے یا کسی ایسے کام کے لیے جس کی آپ طاقت نہیں رکھتے تھے یا کسی ڈاکو یا چور وغیرہ کو ہٹانے کے لیے بلایا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے اپنے معاملات اس کے سپرد کر دیے ہیں بلکہ مخلوق سے ان امور میں مدد لی جا سکتی ہے جن پر مخلوق قادر ہے۔

من شريط : (أسئلة شباب السدة والنادرة)

https://t.me/shmuqbil/26


امام الوادعی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصر ترجمہ (۴/۴)

(پچھلے پوسٹ سے جاری ہے)

جامعہ سے فراغت کے بعد کا مرحلہ

جامعہ سے فراغت کے بعد شیخ رحمۃ اللہ علیہ کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سب سے بڑی پریشانی ان کا یمن کے "صعدہ" نامی شہر کی طرف کتابوں سمیت واپس جانا تھا۔ یہ وہ کتابیں تھیں جنہیں شیعہ مسلک کے لوگ دین خراب کرنے والی وہابی کتابیں سمجھتے ہیں۔

شیخ رحمۃ اللہ علیہ اپنے علاقے "دماج" پہنچے اور انہوں نے بچوں کو قرآن کی تعلیم دینا شروع کی۔

شیخ خود فرماتے ہیں: "پھر ساری دنیا ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گئی گویا کہ میں ملک، دین اور حکومت کو تباہ کرنے آیا ہوں۔ اس وقت میں نہ کسی مسؤول کو جانتا تھا اور نہ ہی کسی قبیلے کے سردار (شیخ القبیلہ) کو۔ پس میں 'حسبنا اللہ ونعم الوکیل' کہا کرتا تھا (معنی: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے) اور زیادہ تنگی محسوس کرنے پر میں دعوت کے لیے اور بھائیوں سے ملنے کے لیے 'صنعاء' یا 'حاشد' یا 'ذمار' یا اسی طرح 'تعز'، 'حدیدہ' یا 'اب' چلا جایا کرتا تھا”۔ اھ۔

یہ تمام باتیں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی آزمائشوں میں سے تھیں جن کا سامنا آپ کو کرنا پڑا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔"

اللہ تعالیٰ نے فرمان (کا ترجمہ): (الم۔ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انھیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟۔ اُن سے پہلے لوگوں کو بھی ہم نے خوب جانچا یقیناً اللہ تعالیٰ انھیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انھیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں۔ )

ام عبد اللہ الوادعیہ حفظہا اللہ اپنے والد کے بارے میں کہتی ہیں:
"کوئی بھی انہیں بھلائی، حصولِ علم اور استقامت میں مدد نہیں کرتا تھا بلکہ یہ بھی کافی نہیں تھا؛ ان کے بڑوں نے ان پر زیادتی کرکے انہیں نقصان پہنچایا اور ان کے خاندان و عوام الناس کو ان کے خلاف ورغلایا، یہاں تک کہ وہ ان کے قتل کا ارادہ کر چکے تھے۔"

نیز انہوں نے اپنی قوم کے حوالے سے ایسی مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کیا جو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، خاص طور پر ہاشمی شیعوں سے۔ ان میں سے بعض لوگ قبائل کے سردار تھے، جو ذاتی مفادات کے لیے اپنے عہدے اور دنیاوی مرتبے کو بچانے کے لیے ان کے خلاف تھے، کیونکہ شیخ کے آنے سے پہلے وہ عوام کے ہاں معزز تھے اور ان کا مال ناحق طریقے سے کھایا کرتے تھے۔ بلا شبہ وہ بہت بڑی آزمائشوں سے گزرے تھے کیونکہ وہ اکیلے جاہلوں اور خواہش پرستوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔"


الشیخ المبارک الناصح الأمین، یحییٰ بن علی الحجوری حفظه اللہ نے اپنی کتاب: (الطبقات ۲۴) میں فرمایا ہے:

"یقینی طور پر ہم جانتے ہیں کہ ہمارے شیخ علامہ الوادعی رحمۃ اللہ علیہ تقریباً پچیس سال پہلے سعودی عرب سے یمن لوٹ کر آئے تھے، جب ملک "تشیع"، "تصوف"، اور "تحزب" (جماعت سازی)، غیر اللہ سے دعا، قبروں کی مٹیوں سے تبرک، اور سراسر جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ پس اکثریت نے ان کی دعوت کو نہیں مانا، بس ان کی جگہ کے تھوڑے لوگوں نے ہی ان کا ساتھ دیا۔ انہوں نے صبر کیا اور دین پر جمے رہے، لوگوں کو دین سکھانے میں محنت کی، جو نفع بخش علم اور نیک عمل اللہ نے انہیں دیا تھا اس پر ثابت رہے (فیما نحسبہ واللہ حسیبہ)”

پھر شیخ نے اپنے بارے میں بتایا: "کچھ دن بعد ایک بھلے شخص نے مدینہ سے میری لائبریری کی کتابیں "صعدہ" کو بھیجیں اور مدیر اعلام حملی، اہل سنت سے نفرت کرنے والا تھا۔ تو جب ہمارے لوگوں نے اس سے کتابوں کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا: ظہر کے وقت دوں گا ان شاء اللہ۔ ظہر سے پہلے ہی شیعہ لوگوں نے مسوولین سے ان کتابوں پر روک لگانے کی اپیل کی کیونکہ یہ وہابیوں کی کتابیں ہیں۔ پھر اس کے لیے جو مجھے جرمانے، پریشانی اور ظلم و ستم سہنا پڑا، اس کے بارے میں مت پوچھو!"

طویل پریشانی سہنے کے بعد، صعدہ کے لوگوں نے صدر علی عبد اللہ صالح کو اس بارے میں خط لکھا اور انہوں نے اس معاملے کو قاضی علی السمان کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ کتابیں دیں گے لیکن فرمایا کہ صعدہ کے لوگ متشدد ہیں، وہ صنعاء کے علماء کو کافر کہتے ہیں۔ چنانچہ ساری کتابیں صنعاء بھیج دی گئیں۔ پھر مکتبہ توجیہ و ارشاد کے بعض لوگوں نے شیخ کو ان کی کتابیں لوٹا دیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اور انہیں مہدیین کے درجے تک پہنچائے۔ اس کے بعد بھی شیخ کو مصیبتیں آئیں، مال سے متعلق انہیں قتل کرنے کی بھی کوشش کی گئی اور جس چھوٹی سی مسجد میں پڑھانا شروع کیا تھا، اسے بم سے اڑانے کی بھی کوشش کی گئی لیکن اللہ نہیں مانتا مگر یہ کہ اپنے نور کو پورا کرے۔ بعض شعراء نے شیخ کی دعوت پر شعر کہا:
"يمضي ابن هادي شاهر ًا صماصمه=صمصام حق للعدو يمزق"

ابن ہادی اپنی تلوار اٹھائے آگے بڑھتا چلا۔۔۔ حق کی تلوار دشمنوں کو تکڑے تکڑے کرنے والی

(البیان الحسن فی ترجمۃ الامام الوادعی وما احیاہ من السنن)


امام الوادعی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصر ترجمہ (۳/۴)

آپ رحمہ اللّٰه تعالٰی کا طلبِ علم:

(پچھلے پوسٹ سے جاری ہے)

معہد الحرم مکمل کرنے کے بعد شیخ محترم نے الجامعہ الاسلامیہ میں شمولیت اختیار کی اور ان کا تبادلہ کلیہ شریعہ و علوم الدین میں کیا گیا اس میں سب سے مشہور شیوخ جن سے شیخ رحمہ اللّٰه نے پڑھا شیخ السید محمد الحکیم اور شیخ محمود عبدالوہاب الفائد مصری ہیں۔
پھر شیخ رحمہ اللّٰہ اپنے متعلق بیان کرتے کہتے ہیں کہ ''جب چھٹیاں آئیں تو میں نے وقت گنوانے اور ضائع کرنے سے ڈرتے ہوئے دو وجوہات کی بنا پر کلیہ شریعہ میں داخلہ لے لیا جن میں سے ایک یہ تھی: علم میں آگے بڑھنا،
دوسرا: اسباق ملتے جلتے تھے اور ان میں سے کچھ تو ایک ہی تھے تو پس وہ مراجعہ شمار ہوتے تھے اس کا جسے ہم نے کلیہ الدعوۃ میں پڑھا تھا اور الحمدللہ میں نے اسے مکمل کیا اور مجھے دو ڈگریاں دی گئی اور میں الحمد اللہ ڈگریوں کی پرواہ نہیں کرتا میرے نزدیک علم معتبر ہے۔
اور شیخ رحمہ اللّٰه نے فرمایا جس سال ہم نے دونوں کلیہ کی تعلیم مکمل کی جامعہ میں ایک اعلیٰ ڈگری کا آغاز کیا گیا جس کو وہ ماسٹر ڈگری کہتے ہیں، میں نے انٹرویو کا امتحان دیا اور پاس ہو گیا یہ علم الحدیث میں تخصص کرنا تھا اور الحمدللہ مجھے فائدہ ہوا، ہمارے شیوخ میں سب سے نمایاں شیخ محمد الامین المصری رحمہ اللہ اور شیخ السید الحکیم المصری اور اس کے آخر میں شیخ حماد بن محمد الانصاری تھے اور کچھ راتوں کو میں حرم مدنی میں شیخ عبدالعزیز بن باز کے صحیح مسلم پر کچھ اسباق میں شرکت کرتا اور حاضر ہوتا تھا اور اسی طرح شیخ البانی کے خاص حلقوں میں طالب علموں کے ساتھ استفادہ کی غرض سے حاضر ہوتا تھا۔
اور اسی طرح جن سے شیخ نے استفادہ فرمایا ان میں *شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ* کا بھی ذکر کیا ہے اور شیخ رحمہ اللّٰه نے تعلیم کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے میں دعوت الی اللہ کا کام بھی کیا اور جن کتابوں سے شیخ رحمہ اللہ نے استفادہ کیا انہیں پڑھایا، شیخ رحمہ اللّٰه نے حرم مکی میں «قطر الندى» اور «تحفۃ السنیہ» پڑھائی۔

انہوں نے مدینہ میں بعض طلبہ کو اپنے گھر پر «الباعث الحثيث»، «قطر الندى» اور «جامع الترمذي» پڑھائیں ۔

آپ رحمة اللہ علیہ فارغ وقت میں کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے، جیسا کہ انہوں نے خود اپنے بارے میں کہا ہے۔ گمراہ شیعہ لوگوں (ان پر اللہ کی طرف سے وہی ہو جو وہ مستحق ہیں) نے یہ کوشش کی کہ انہیں اس خیر سے ہٹا دیا جائے۔ بعض نے کہا: "تجھے معہد حرم میں کتنا دیتے ہیں؟" انہوں نے جواب دیا: "ڈیر سو ریال۔" اس شیعہ نے کہا: "تجھے ڈیر سو ریال ہم دیں گے، تو معہدِ حرم میں پڑھنا چھوڑ دے۔"

پس آپ پریشان حال اور غمگین ہو کر گھر لوٹ آئے۔ ان کے دل میں تردد داخل ہو چکا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسانی پیدا کی کہ آپ نے "المقبلی" کی کتاب "العلم الشامخ" پڑھی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اس دن کے بعد ان سے دوری اختیار کر لی، تو انہوں نے بھی دوبارہ مجھے تنگ نہیں کیا۔ اھ

(نیچے پوسٹ میں جاری ہے ان شاء اللہ)


امام الوادعی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصر ترجمہ (۲/۴)

(پچھلے پوسٹ سے جاری ہے)

آپ رحمہ اللّٰه تعالٰی کا طلبِ علم:

پس اللّٰه تعالیٰ اس شاندار امام کو لایا اور ان میں علم کی محبت پیدا کی یہ اللّٰه تعالیٰ کی رحمت اور اس کے وعدے کی تکمیل سے ہے ’’بے شک ہم ہی نے ذکر نازل کیا اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں". (الحجر:9)
اور رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر سو سال کے شروع یا آخر میں ایک ایسے شخص کو بھیجتا ہے جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے اور شیخ رحمۃ اللہ علیہ ہمیں اپنے علم کی طلب کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہیں جیسا کہ ان کے ترجمہ میں موجود ہے جسے انہوں نے بذات خود لکھا ہے شیخ نے فرمایا: میں مکتب میں پڑھا یہاں تک کہ میں نے مکتب کا نصاب ختم کر لیا پھر میری عمر کا کچھ حصہ جتنا اللّٰہ تعالٰی کو منظور تھا ضائع ہو گیا جس میں میں علم حاصل نہ کرسکا اور میں نے مسجد الہادی میں علم حاصل کیا لیکن وہاں علم حاصل کرنے میں میری معاونت نہیں کی گئی پھر میں نے حرمین شریفین اور نجد کی سرزمین کا سفر کیا پس میں واعظین/ مبلغین کو سنتا تھا اور مجھے ان کے وعظ اچھے لگتے تھے تو میں نے کچھ مبلغین سے مشورہ کیا کہ کون سی کتابیں مفید ہیں تاکہ میں انہیں خرید سکوں تو انہوں نے صحیح البخاری، بلوغ المرام، ریاض الصالحین اور فتح المجید شرح کتاب التوحید کی طرف میری رہنمائی کی اور انہوں نے مجھے توحید کے نصاب کے کچھ نسخے دیے (اس وقت) میں مکہ میں الحجون کی ایک عمارت میں پہرے دار تھا پس میں نے اپنے آپ کو ان کتابوں میں مشغول کر دیا اور یہ کتب ذہن سے معلق ہوگئیں کیونکہ ہمارے ملک میں کام اس کے خلاف تھا جو ان (کتب) میں تھا، ایک مدت کے بعد میں اپنے ملک واپس آیا اور میں نے جو کچھ دیکھا وہ ان کتب میں موجود چیزوں کے خلاف تھا۔
پھر شیخ رحمہ اللّٰه نے اپنے بارے میں بتایا کہ جامع الہادی میں دوبارہ تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کر کے مجھے تکلیف پہنچائی گئی اور انہوں نے اس پر عقیدہ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے پر توجہ مرکوز کی تاکہ اس کے ذہن میں جو صحیح عقیدہ معلق ہوا ہے اسے بدل سکیں۔
لیکن ایسا نہیں تھا اور جیسا کہ انہوں اپنے لیے بطور استشہاد کہا:
"میرے پاس اسکی محبت آئی پہلے اس کے کہ میں اس کی محبت کو پہچانتا
پس اس نے دل کو خالی پایا اور وہ اس پر متمکن ہوگئی"
یعنی صحیح عقیدہ نے ان کے دل پر قبضہ کر لیا تھا، اس لیے انہوں نے گرامر میں سخت محنت کی کہ مقرر کردہ کتابیں شیعی معتزلی تھیں جیسا کہ انہوں نے اپنے بارے بتایا اور اسی طرح وہ اپنے بارے میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب انقلاب برپا ہوا تو انہوں نے نجران کا سفر کیا اور ابو الحسین مجد الدین المؤیدی کے پاس رہے (جو یمن کے گمراہ ائمہ جو شیعہ مذہب کے ماننے اور اس کی طرف دعوت دینے والوں میں سے ایک ہے بلکہ اس نے "مطالع الانوار فی ترجمہ علماء الامصار" میں چالیس سے زیادہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کیا اور یہ چیز اس کے رفض پر دلالت کرتی ہے) شیخ رحمہ اللّٰه نے اس سے گرامر میں استفادہ کیا۔
یہ شیخ رحمہ اللّٰه کی یمن میں حاصل کی گئی علمی کاوشوں کا مختصر خلاصہ ہے پھر وہ سعودی عرب چلے گئے جہاں انہوں نے ڈیڑھ ماہ کے لیے ریاض میں حفظ قرآن کے اسکول میں داخلہ لیا پھر وہ مکہ روانہ ہو گئے شیخ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر کوئی کام ملتا تو میں کر لیتا تھا اور رات کو شیخ یحییٰ عثمان الباکستانی کے تفسیر ابن کثیر، بخاری اور مسلم پر درس میں حاضر ہوتا تھا۔

اور میں کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا اور میں نے یمن کے علماء میں سے دو نامور شیوخ سے ملاقات کی جن میں سے ایک القاضي یحییٰ الاشول جو کہ عمر رسیدہ تھے میں ان سے سبل السلام للصنعانی پڑھتا تھا اور وہ مجھے وہی کچھ پڑھاتے تھے جس کا میں طالب تھا اسی طرح شیخ عبد الرزاق الشاحذی المحویتی بھی مجھے وہی کچھ پڑھاتے جس کا میں طالب تھا۔
پھر شیخ رحمہ اللّٰه نے جب معہد الحرم کا آغاز ہوا اس میں داخلہ لیا اور سب سے نمایاں شیوخ جن سے شیخ رحمہ اللّٰه نے پڑھا ان میں شیخ عبدالعزیز السبیل، شیخ عبداللہ بن حمید اور شیخ محمد السبیل شامل ہیں یہ معہد میں تھے اور شیخ رحمہ اللّٰه نے حرم میں شیخ عبد العزیز بن راشد النجدی اور شیخ محمد بن عبداللہ الصومالی سے
پڑھا۔

(نیچے جاری ہے ان شاء اللہ)




🔹امام الوادعی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصر ترجمہ (۱/۴)


آپ کا نام:

وہ امام، علامہ، شیخ الاسلام، رحلة الطالبين، مجددين میں سے ایک ہیں، زاهد، متقى، سنى، سلفى، فقيہ، محدث، بدعت کو مٹانے والے اور سنت کے مددگار، اور حديث اور اس کی علل، خاص، عام، اور مجمل کے امام، *أبو عبد الرحمن مقبل بن هادي بن مقبل بن قائدة الهمدانى الوادعى الخلالى، جو کہ آل راشد کے قبیلے سے ہیں۔

آپ کی پیدائش:

آپ رحمہ اللہ دماج کے گاؤں، قبیلہ وادعہ میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں صعدہ شہر کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔
جہاں تک اُن کی ولادت کی تاریخ کی بات ہے تو وہ تحدیدا معلوم نہیں ہے اور اس کی وجہ لوگوں کا اس وقت تاریخ کا اہتمام نہ کرنا ہے۔ اگر چہ ممکن ہے کہ رحمہ اللہ ١٣٥٤ھ ميں پیدا ہوئے تھے، جو انہوں نے ہمیں دروس میں بتایا ہے اس کے مطابق۔

آپ کی پرورش:

آپ رحمۃ اللہ علیہ یتیم تھے، اُن کے والد رحمہ اللہ ان کے بچپن میں وفات پا گئے تھے تو وہ انہیں نہیں جان سکے۔
لہٰذا وہ ایک فترہ اپنی والدہ رحمہا اللہ کی حضانہ میں رہے۔ وہ انہیں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیتی تھیں اور انہیں حکم دیتی تھیں کہ وہ اپنے معاشرے کو دیکھ کر اُن کی طرح ہوں لیکن وہ انہیں معذرتاً کہتے تھے کہ وہ پڑھیں گے تو وہ جواباً انہیں کہتیں: ' اللہ تمہیں ہدایت دے۔'(مصدر: ان کی بیٹی حفظہا اللہ کی کتاب: نبذہ مختصرہ عن حیاة والدی العلامہ مقبل الوادعی العطرہ)

آپ کا معاشرہ:

آپ رحمہ اللہ ایک شیعہ معاشرے میں بڑے ہوئے اور یہ معاشرہ خرافات، شرکیات، اور ان کے علاوہ باقی اشیاء سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کے شیعیت یمن میں ہزار سال سے بھی پہلے چھا چکی تھی۔ جسے گمراہ آئمہ میں سے ایک نے یمن میں داخل کیا جس کا نام الہادی یحییٰ بن الحسین المعتزلی تھا، جس نے صعدہ کو اپنے ملک کا دارالحكومت بنایا۔ اس کو دفنایا بھی وہاں گیا تھا اور پھر اس کی قبر کو ایک بُت بنایا گیا جس کی اللہ عزوجل کے سوا عبادت ہوتی تھی۔ تو اس معاشرے میں جہالت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ غیر اللہ کے لیے نذر کیا کرتے تھے، غیر اللہ کے لیے ذبح کرتے، اور غیر اللہ سے ڈرتے، مدد طلب کرتے، اور استغاثہ کرتے۔

جو عبادت اور اعمال صرف اللہ کے لیے کرنے تھے، اس معاشرے نے انہیں غیر اللہ کے لیے کیا، الا وہ کہ جس پر اللہ نے رحم کیا وہ اسماء وصفات کے باب میں معتزلہ تھے کیونکہ وہ صفات، شفاعت اور اللہ کو آخرت میں دیکھنے اسی طرح اور کئی اعتقادی مسائل کا انکار کرتے تھے۔ اور انہوں نے دین کا دارومدار اہل بیت کی محبت کو بنا دیا تھا، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا:

لي خمسة هم الحجى...من نار لظى والحاطمة
"میرے پاس پانچ ہیں جو میرے لیے "نار لظى" اور "الحاطمة" سے بچنے کے لیے دلیل ہیں

المصطفى والمرتضى...وأبناهما والفاطمة
"مصطفىٰ اور مرتضىٰ... اور ان دونوں کی اولاد (حسنین) اور فاطمہ۔"

بلکہ بسا اوقات وہ اُن کو یا خامسہ (اے پنجتن!) کہہ کر پکارتے تھے اور جب کوئی آدمی، اُونٹ، یا بچہ گرتا تو وہ بسم اللہ کی جگہ یا محمد یہ یا علی کہتے وہ دین میں سے صرف انکے نام سے واقف تھے جبکہ وہ اپنی تشيع میں اندھے تھے اور باطل میں غرق تھے اور اس کی طرف دوڑنے والے تھے۔ پس اللہ ہی سے استعانت طلب کی جاتی ہے اس پر جو وہ بیان کرتے ہیں، اور یہ جہالت کی وجہ سے ہے جو کہ اس خبیث شیعہ دعوت کے سبب پھیلا، گھی سید کے لیے ہے، مینڈھا سید کے لیے ہے، کشمش، انگور، اناج اور دیگر چیزیں سب سید کے لیے ہیں۔ وہ ان کے گھٹنوں کو بوسہ دیتے ہیں اور انکی تعظیم کرتے ہیں اور یہ (سید) انکے دعوے کے مطابق –اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے– ان میں سے ایک جادوگر دوسرا قبروں کا پجاری تیسرا گمراہ، بدعتی اور چوتھا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا کہنے والا ہے اور وہ قیامت کے دن مومنین کا اللہ عز وجل کو دیکھنے اور اہل کبائر کی شفاعت اور تقدیر کے منکر اور اس کے علاوہ باطل عقائد رکھنے والے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ہدایت کی طرف راہنمائی کرنے والا نہیں ہے نہ ہی کوئی عقلمند ہے –مگر وہ جس پہ اللہ رحم کرے– یہ اعتقادی اشیاء ہیں، جہاں تک عبادات کی بات ہے تو وہ سارے حنفی مذھب پر ہیں اور وہ سنتوں میں کوتاہی کرنے والے اور بدعتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ –اور اللہ سے ہی كى استعانت طلب کی جاتی ہے۔

(نیچے جاری ہے ان شاء اللہ)

https://t.me/shmuqbil/15


[Reserved for Index 3]


[Reserved for Index 2]




الشیخ مقبل الوادعی رحمة اللہ علیہ کے مقالات - فتاوٰی - رسائل اردو میں۔

🔹ابن عثیمین: "الشیخ مقبل امام ہیں۔" (البیان الحس ۲۷)
🔹ابن باز شیخ مقبل کی دعوت کے بارے میں: "یہ اخلاص ہی کا نتیجہ ہے۔" (مصدر سابق)

اس چینل کو اہل السنہ کے بعض طلباء چلاتے ہیں۔
ابو محمد نظام
دار الحدیث السلفیہ الحامی

17 last posts shown.