الشیخ رحیم الله الحقانی


Гео и язык канала: не указан, не указан
Категория: не указана



Гео и язык канала
не указан, не указан
Категория
не указана
Статистика
Фильтр публикаций


Видео недоступно для предпросмотра
Смотреть в Telegram


*ښځه ( زنانه ) به اعتکاف په کور کي کوي که په مسجد کي مدلل بیان*
مناظر اسلام شیخ رحیم الله حقاني صاحب


الشیخ رحیم الله الحقانی
https://t.me/shaikhrahimullah

د محترم شیخ صیب د ټیلیګرام چینل ته داخل شی


Видео недоступно для предпросмотра
Смотреть в Telegram


د وکټوری اهلحدیث یو څو خود ساخته اعتراضاتو ته مدلل جوابات
#کورس_مناظره 25 #درس
مناظر اسلام شیخ رحیم الله حقانی صاحب






Видео недоступно для предпросмотра
Смотреть в Telegram


د وکټوری اهلحدیث اعتراض چی د امام صیب ولی کله په یوه مسئله کی دوه قوله وی مدلل جواب
#کورس_مناظره 24 #درس
مناظر اسلام شیخ رحیم الله حقانی صاحب


ډاکټر ذاکر نایک دکفاروددینونومطالعه لری لکن
عقیده، فکر اونظر یی دجمهورو سلفو نه منحرف دي
مناظراسلام شيخ رحيم الله حقاني صاحب حفظه الله ورعاه


Видео недоступно для предпросмотра
Смотреть в Telegram




Видео недоступно для предпросмотра
Смотреть в Telegram


#ذاکرنایک_حقیقت
ذاکر نایک واي که یو کس د رسول الله صلی الله علیه وسلم د رسالت څخه منکر شي او وی نه مني ددی کس لپاره هم جنت ته د تللو چانس شته او تلي شي
دا چی په ختـم نبـوت حمله نشی نو څه به وي




۲؍۴۳۸، زادالمعاد: ۲؍ ۲۵۷، مصنف ابن ابی شیبۃ بحوالہ عینی شرح کنز:۱۴۱، سنن دار قطنی:۴؍۳۱، مطبوعہ قاہرۃ]
حضرت حسن کا بیان ہے کہ ہم سے حضرت ابن عمرؓ نے بیان فرمایا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو حالت حیض میں ایک طلاق دیدی پھر ارادہ کیا کہ دوطہروں میں بقیہ دوطلاقیں دیدیں گے، حضور اقدسﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا اے ابنِ عمر! اس طرح اللہ نے تم کو حکم نہیں کیا ہے،تم نے سنت طریقہ کے خلاف کیا (کہ حالتِ حیض میں طلاق دیدی) سنت طریقہ یہ ہے کہ طہر کا انتظار کیا جائے اور ہر طہر میں ایک طلاق دی جائے اس کے بعد حضور اکرمﷺ نے مجھے رجوع کرنے کا حکم فرمایا چنانچہ میں نے رجوع کرلیا پھر فرمایا جب وہ پاک ہوجاوے تو تم کو اختیار ہے چاہو تو طلاق دیدینا یا اس کو روکے رکھنا، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں پھر میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ اگر میں نے تین طلاقیں دی ہوتیں تو کیا میرے لیے رجوع کرنا جائز ہوتا؟ حضور نے فرمایا نہیں، اس صورت میں بیوی تم سے جدا ہوجاتی اور تمہارا یہ فعل (تین طلاقیں ایک ساتھ دینا)گناہ ہوتا۔
آپ نے دیکھا کہ مذکورہ بالا حدیثوں میں تین طلاق سے تین ہی طلاق واقع ہونے کا حکم ہے۔ ان کے علاوہ اور بہت سی روایتیں صراحۃً اس پر دلالت کرتی ہیں کہ تین طلاقوں سے تین ہی طلاق واقع ہونگی، ایک نہیں۔
نوٹ: داکٹر ذاکر نائیک صاحب نے اپنی تقریر میں سعودیہ کے تین سو علما کے فتاوےٰ کا حوالہ دیا، پھر اپنی رائے بھی پیش کی ؛ لیکن یہ ذکر نہیں کیاکہ وہ کون سے علما ہیں جب کہ سعودی عرب کی تحقیقاتِ علمیہ کے موقر مفتیان نے تین طلاق سے تین ہی طلاق کا فتویٰ دیا ہے۔قرارداداس طرح ہے:
’’بعدالاطلاع علی البحث المقدم من الامانۃ العامۃ لھیءۃ کبارالعلماء والمعدمن قبل لجنۃ الدائمۃ للبحوث والافتاء فی موضوع’’الطلاق الثلاث بلفظ واحد‘‘ وبعد دراسۃ المسألۃ وتداول الرأی واستعراض الاقوال التی قیلت فیھا ومناقشۃ ماعلی کل قول من ایراد توصل المجلس بأکثریتہ الی اختیارالقول بوقوع الطلاق الثلاث بلفظ واحد ثلاثاً۔۔۔الخ‘‘[مجلۃ البحوث الاسلامیۃ، المجلد الاول،العددالثالث سنۃ ۱۳۹۷ھ]
(د)۔۔۔ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام ’’گفتگو‘‘ میں تقریر کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ:
’’مسلمانوں کو ایسا طریقہ اپنانا چاہیے کہ پوری دنیا میں ایک دن عید ہوسکے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ رائے ارشادِنبوی’’صوموالرؤیتہ وافطروالرؤیتہ‘‘ یعنی ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھواور چاند دیکھ کر ہی افطارکرو‘‘کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عقلِ سلیم کے بھی خلاف ہے؛ اس لیے کہ وحدتِ عید کا مسئلہ اصل میں اس بنیاد سے پیداہوتا ہے کہ عید کو ایک تہوار یا ملکی تقریب یا قومی ڈ ے قراردیا جائے؛مگر یہ انتہائی غلط سوچ ہے؛ اس لیے کہ ہماری عیدین،رمضان اور محرم کوئی تہوارنہیں؛ بلکہ سب کی سب عبادات ہیں،نیز اوقات کا ہرملک ہر خطہ میں وہاں کے افق کے اعتبارسے مختلف ہونا لازمی ہے، ہم ہندوستان میں جس وقت عصر کی نماز پڑھتے ہیں، اس وقت واشنگٹن میں صبح ہوتی ہے،جس وقت ہم ہندوستان میں ظہر کی نماز اداکرتے ہیں،اس وقت لندن میں مغرب کی نماز ہوچکی ہوتی ہے،نیز ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ملک میں جمعہ کا دن ہوتا ہے تو دوسرے میں ابھی جمعرات ہے اور تیسرے میں سنیچر کا دن شروع ہوچکا ہے، ان حالات میں کسی ایک دن میں پوری دنیا والوں کے عید منانے کا تصور کیسے کیا جاسکتاہے۔
الغرض ان تنقیدات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب بہت سے مسائل میں اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد سے ہٹے ہوئے ہیں،قرآن و حدیث کی تشریح میں لغتِ عرب اور سلف سے منقول تفاسیر کو نظر انداز کرکے عقلِ خام کی مددسے تفسیر کرکے، تحریف معنوی کے شکار ہیں، نیز وہ (ڈاکٹر صاحب) علومِ شرعیہ اور مقاصدشریعت سے گہری واقفیت نہ ہونے کے باوجود کسی امام کی تقلید نہیں کرتے؛ بلکہ الٹے وہ ائمہ مجتہدین پر تنقیدکرتے ہیں؛ اس لیے ان(ڈاکٹر صاحب) کی باتیں ہر گز قابل اعتبار نہیں،ان کے پروگرام کو دیکھنا ،ان کے بیانات سننا اور بلاتحقیق ان پر عمل کرنا سخت مضر ہے۔ اور چونکہ واقعی تحقیق کرنا ہرکس و ناکس کی بات نہیں؛ اس لیے ان کے پروگرام سے عامۃ المسلمین کو احتراز کرنا ضروری ہے۔ نیز ہر مؤمن کو یہ بات ہمیشہ مستحضر رکھنا چاہیے کہ دین کا معاملہ ،جوایک حساس معاملہ ہے،انسان دین کی باتیں سنتا اوران پر عمل کرتاہے، صرف آخرت میں نجات پانے کے لیے ،اس میں صرف نئی نئی تحقیق،برجستہ جوابات، حوالوں کی کثرت اور لوگوں میں بہ ظاہر مقبولیت دیکھ کر، بلا تحقیق کسی بات پر ہرگزعمل نہیں کرناچاہیے؛ بلکہ انسان پر ضروری ہے کہ وہ غور کرلے کہ وہ آدمی دینی علوم میں کیا اہلیت رکھتاہے؟کن اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے؟ کس ماحو ل میں اس کی پرورش ہوئی، اس کی وضع قطع، لباس، ہئت دیگرعلما وصلحاسے میل کھاتی ہے یا نہیں؟نیز معاصر قابل اعتماد علما اور مشائخ کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اسی طرح یہ بھی دیکھ لیناضروری ہے کہ اس سے متأثر ہونے والوں اور اس کے گرد جمع ہونے والوں میں صحیح


یہاں ڈاکٹر صاحب نے دو باتیں سراسرغلط کہیں ہیں:
(الف)۔۔۔ نمازمیں مرد و عورت کے درمیان فرق کے سلسلے میں کوئی حدیث نہیں۔
(ب) ۔۔۔حضورﷺ نے عورتوں کو مردوں کی طرح بیٹھنے کا حکم دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے پہلی بات کہہ کر ان تمام احادیث کا انکار کردیا ، جن میں مردوں اور عورتوں کی نماز کے درمیان فرق کا بیان موجودہے۔ ذیل میں چندروایتیں ذکر کی جاتی ہیں:
(۱)۔۔۔اخرج البخاری عن النبی علیہ السلام انہ قال: یا ایھا الناس! مالکم حین نابکم شیء فی الصلاۃ، اخذتم فی التصفیق، انما التصفیق للنساء.[۱/۱۷۴، رقم الحدیث:۶۸۴]
(۲)۔۔۔عن وائل بن حجر قال قال لی رسول اللہﷺ: یا وائل بن حجر اذا صلیت فاجعل یدیک حذاء اذنیک والمرأۃ تجعل یدیھا حذاء ثدییھا۔ [المعجم الکبیرللطبرانی]
(۳)۔۔۔عن یزید بن ابی حبیب ان رسول اللہﷺ مر علی امرأتین تصلیان فقال: اذا سجدتما فضما بعض اللحم الی الارض؛ فان المرأۃ لیست فی ذلک کالرجل [اخرجہ ابوداؤد مرسلا والبیھقی موصولا]
(۴)۔۔۔سئل ابن عمر کیف کن النساء یصیلین علی عھد رسول اللہﷺ قال کن یتربعن ثم امرن ان یتحفزن [جامع المسانید والسنن]
ان روایات میں مردوں اور عورتوں کی نما زمیں مختلف طرح کے فرق کا ذکر ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی حدیثیں ہیں، اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ اور جہاں تک دوسری بات یعنی بخاری شریف میں عورتوں کو مردوں کی طرح بیٹھنے سے متعلق حکم نبوی کی بات، تویہ ایک غلط انتساب ہے، حضرت ام الدرداء کی جس روایت کا ڈاکٹر ذاکر صاحب نے حوالہ دیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:’’وکانت ام الدرداء تجلس فی صلاتھا جلسۃ الرجل وکانت فقیھۃ.‘‘ [بخاری شریف:۱/۱۱۴]
اس روایت میں کہیں بھی حضورﷺ کے قول و فعل کا ذکر نہیں ہے؛ بلکہ ایک صحابیہ کا عمل ہے، جس کا ذکر کرکے امام بخاری نے اشارہ بھی کردیا کہ وہ خود فقیہہ تھیں وہ اپنے اجتہاد سے ایسا کرتی تھیں، نیز امام بخاریؒ نے اسے تعلیقاً ذکرکیا ہے، سند ذکر نہیں کی ہے۔
(۴)۔۔۔ائمہ مجتہدین کے اتباع سے فرار اور مسائلِ فقہیہ میں سوادِ اعظم کی راہ سے نمایاں انحراف
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب اپنی تحریرات اور تقریرات کی روشنی میں کسی امام کے متبع معلوم نہیں ہوتے؛ بلکہ اباحیت ، جدت پسندی نیز غیر مقلدیت اور لا مذہبیت کے شکار ہیں، صرف یہی نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کسی متعین امام کی تقلید نہیں کرتے؛بلکہ ائمہ کی تقلید کرنے والے مخلص عوام کو عدم تقلید کی روش اپنانے کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنے بیان کردہ مسائل میں کہیں کسی امام کا قول و استنباط کردہ حکم کو اپنی طرف منسوب کرکے نقل کرتے ہیں، اور کہیں خود مجتہدانہ انداز پر مسئلے بیان کرنے لگتے ہیں، جب کہ ان کو مسائل نقل کرنے میں اس متعین امام کا نام لینا چاہیے، جنہوں نے اس مسئلے کا استنباط کیا ہے؛تاکہ سننے والے کو یہ مغالطہ نہ ہو کہ قرآن وسنت سے صرف یہی ثابت ہے، اس کے علاوہ جو دوسری باتیں لوگوں کے عمل میں ہیں چاہے وہ قرآن و حدیث سے ثابت اور ائمہ مجتہدین کا قول کیوں نہ ہو -غلط ہیں-ذیل کی مثالوں سے مذکورہ باتوں کا بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا، ملاحظہ فرمائیں:
(الف)۔۔۔ بلا وضو قرآن چھونا جائز ہے۔
ڈاکٹر صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’ بلا وضو قرآنِ کریم چھونے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘‘ الخ
حالاں کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ قول آیتِ کریمہ:لایمسہ الاالمطہرون. نیز تمام ائمہ مجتہدین کے خلاف ہے۔
(ب)۔۔۔ خطبۂ جمعہ عربی زبان کے بجائے مقامی زبان میں ہونا چاہیے۔
ایک موقعہ پر خطبۂ جمعہ سے متعلق ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں:
’’میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں جمعہ کا خطبہ مقامی علاقائی اور مادری زبانوں میں دیے جانے کااہتمام کیا جائے تاکہ۔۔۔‘‘
حالاں کہ حضورﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک خطبۂ جمعہ عربی میں دینے پر توارث چلا آرہا ہے، آج ڈاکٹر صاحب یہ دعوت دے رہے ہیں کہ خطبہ مقامی زبان میں ہوناچاہیے؛ تاکہ لوگ سمجھ سکیں، جب کہ یہ مصلحت (غیر عربی جاننے والوں کا سمجھنا) حضورﷺ کے زمانے میں بھی موجود تھی؛ اس لیے کہ حضور علیہ السلام کے خطبے میں عرب کے علاوہ عجم کے لوگ بھی شریک ہوتے؛ لیکن حضورﷺ نے ہمیشہ عربی زبان میں خطبہ دیا، کسی دوسری زبان میں خطبہ نہیں دلوایا، اور نہ ہی بعد میں اس کا ترجمہ کروایا، اسی طرح صحابۂ کرام،تابعین ،تبع تابعین اور ان کے متبعین عرب سے نکل کر عجم میں گئے، مشرق و مغرب میں صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم عجمیوں کی زبان خوب جانتے تھے؛ لیکن پھر بھی خطبہ عربی ہی میں دیا کرتے تھے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ خلفائے راشدین صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تعامل ومواظبت اور ساری امت کا توارث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خطبہ عربی زبان ہی میں ضروری ہے، یہاں تک کہ امام مالک رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کی صحت کے لیے خطہ کا عربی زبان میں ہونا ضروری ہے، اگرچہ پورا مجمع عجمیوں کا ہو، عربی کوئی نہ جانتا ہواور اگر عربی میں خطبہ پڑھنے والا مجمع میں کوئی نہ ہو تو لوگوں پر ظہر کی ادائیگی لازم ہوگی، جمعہ ساقط ہوجائے گا۔’’ولوکان الجماعۃ عجما لا


یعرفون العربیۃ، فلوکان لیس فیھم من یحسن الاتیان بالخطبۃ عربیۃ لایلزمھم جمعۃ‘‘ [حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر:۱؍۳۷۸،نقلا عن المقالات الفقھیۃ] ینز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خطبہ کا خاص عربی زبان ہی میں ہونا ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کا مشرق و مغرب میں ہمیشہ اسی پر عمل رہا ہے۔[مصفی شرح موطا:۱۵۲،م:مطبع فاروق دہلی]
(ج) ۔۔۔تین طلاق سے ایک ہی طلاق ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر ذاکر صاحب فرماتے ہیں:
’’تین طلاق کے لیے اتنی شرائط ہیں، جن کا پوراہونا ناممکن ہے، سعودیہ کے تین سو فتوے موجود ہیں، اس لیے طلاق ایک ہے، آج کے حالات کے مطابق ایک ہونی چاہیے۔‘‘
[خطبات ذاکر نائیک بحوالہ حقیقت ذاکر نائیک:۳۳۱]
حالاں کہ صحابۂ کرام، تابعین عظام ائمہ اربعہ اور جمہور امت، نیز موجودہ دور کے سعودیہ عربیہ کے تمام معتبر علما کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق سے تین ہی طلاق واقع ہوتی ہیں ایک نہیں، اس مسئلے میں پوری تاریخ میں کسی معتبر عالم کا اختلاف نہیں،سوائے علامہ ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد علامہ ابن القیمؒ کے؛ لیکن پوری امت (جن میں بڑے بڑے تابعین،چاروں ائمہ امام ابو حنیفہؒ ، امام شافعیؒ ، امام مالکؒ ، اور امام احمد بن حنبلؒ شامل ہیں) کے مقابلے میں ان دو حضرات کی رائے قطعا قابلِ اتباع نہیں ہے، ڈاکٹر صاحب ایسے اجماعی حکم کے خلاف مسئلہ بیان کرکے امت کو گمراہ کررہے ہیں۔ یہ حکم یعنی تین طلاقوں سے تین ہی طلاق کا واقع ہونا قرآن کی آیت، بے شمار احادیث اور صحابہ کرام کے تعامل سے واضح طور پر ثابت ہے، چندحدیثیں ملاحظہ فرمائیں:
(۱)۔۔۔وقال اللیث عن نافع کان ابن عمر اذا سئل عن من طلق ثلاثا قال لو طلقتَ مرۃ اومرتین (لکان لک الرجعۃ) فان النبیﷺ امرنی بھذا(ای بالمراجعۃ) فان طلقھا ثلاثا حرمت حتی تنکح زوجا غیرہ [بخاری شریف،۲:۷۹۲، نیز۲:۸۰۳]
حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے جب اس شخص کے متعلق فتویٰ دریافت کیا جاتا جس نے تین طلاقیں دی ہوں، تو فرماتے اگر تونے ایک یا دو طلاق دی ہوتی(تو رجوع کرسکتا تھا) اس لیے کہ حضور اکرمﷺ نے مجھ کو اس کا (یعنی رجعت کا) حکم دیا تھا،اور اگر تین طلاق دیدے تو عورت حرام ہوجائے گی یہاں تک کہ وہ دوسرے مرد سے نکاح کرے۔
(۲)۔۔۔عن مجاہد قال کنت عندابن عباس فجاء ہ رجل فقال : انہ طلق امرأتہ ثلاثا، قال: فسکت حتی ظننت انہ رادھا الیہ،ثم قال: ینطلق احدکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یاابن عباس یاابن عباس فان اللہ عزوجل قال:ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا.عصیت ربک وبانت منک امرأتک.[أخرجہ أبو داود: ۱؍۲۹۹،باب فی الطلاق علی الھزل، رقم:۱۸۷۸]
حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں ابنِ عباسؓ کے پاس تھا، کہ ایک شیخ آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی، فرماتے ہیں کہ حضرت عباس خاموش رہے میں سمجھا کہ وہ اس کی بیوی کو لوٹا دیں گے(رجعت کا حکم دیں گے) مگر فرمایا: تم میں سے کوئی شخص حماقت کربیٹھتا ہے(تین طلاق دیدیتا ہے) پھر چلاتا ہے ابنِ عباس! ابن عباس!تو( سنو!) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے راہ نکالتے ہیں‘‘تم نے تو اپنے رب کی نافرمانی کی(تین طلاق دیدی) اس لیے تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔
(۳)۔۔۔ وعن مالک بلغہ: ان رجلا قال لعبداللہ بن عباس:انی طلقت امرأتی ماءۃ تطلیقہ، فماذا تری علی؟ فقال ابن عباس: طلقت منک بثلاث، وسبع و تسعون اتخذت بھا آیات ھزوا. [اخرجہ الامام مالک:۱۹۹]
حضرت امام مالکؒ کو یہ روایت پہنچی کہ ایک آدمی نے عبداللہ ابن عباسؓ سے دریافت کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیدیں، آپ اس سلسلے میں کیا فرماے ہیں؟ تو ابن عباسؓ نے جواب دیا: (ان میں سے) تین طلاقیں تیری بیوی پر پڑگئیں، اور ستانوے طلاقوں سے تو نے اللہ کی آیتوں کا کھلواڑ کیا۔
(۴)۔۔۔عن مالک بلغہ: ان رجلا جاء الی عبداللہ ابن مسعود فقال:انی طلقت امرأتی ثمانی تطلیقات، قال ابن مسعود فماذا قیل لک؟ قال: قیل لی: انھا قد بانت منی، فقال ابن مسعود صدقوا۔ (الحدیث) [المؤطا للامام مالک:۱۹۹]
حضرت امام مالکؒ کو یہ روایت پہنچی کہ ایک آد می عبداللہ ابن مسعودؓ کے پاس آیا، اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دی ہیں۔حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا کہ لوگوں نے تمہیں کیا کہا؟ اس نے جواب دیا کہ میری بیوی بائنہ ہوگئی۔ تو حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا:سچ کہا۔(یعنی تین طلاقیں پڑگئیں)
(۵)۔۔۔حدثناعلی بن محمد بن عبید الحافظ نا محمد بن شاذان الجوہری نا معلی بن منصور نا شعیب بن رزیق ان عطاء الخراسانی حدثھم عن الحسن قال نا عبداللہ بن عمر انہ طلق امرأتہ تطلیقہ وھی حائض ثم اراد ان یتبعھا بتطلیقتین اخریین عندالقرأین فبلغ ذلک رسول اللہﷺ فقال یا بن عمر ماھکذاامرک اللہ انک قد اخطأت السنۃ۔ والسنۃ ان تسقبل الطہرفیطلق لکل قرء قال فامرنی رسول اللہﷺ فراجعتھا ثم قال اذا ہی طہرت فطلق عند ذلک اوامسک فقلت یا رسول اللہ ارأیت لو انی طلقتھا ثلثا اکان یحل لی ان اراجعھا قال لا، کانت تبین منک وتکون معصیۃ۔[سنن دار قطنی:


دینی شعوررکھنے والے کتنے ہیں اور دینی خدمات سے وابستہ معتبرلوگ کس حدتک؟ اگرکچھ متعبرلوگ قریب ہیں تو ان سے معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہے؟ اور وہ کیوں قریب ہیں؟ ایسا تونہیں کہ کسی غلط فہمی، معلومات کی کمی یا کسی مصلحتِ مزعومہ کے تحت وہ قریب دکھائی دے رہے ہوں؟ حاصل یہ ہے کہ ان تمام باتوں کی تحقیق کے بعد اگر اطمینان ہوجائے ،تبھی دینی معاملے میں اس کی باتیں قابل اعبار اور لائق عمل ٹھہریں گی، ورنہ اس سے دور رہنے ہی میں ایمان کی سلامتی ہے،مشہور تابعی محمد بن سیرین کا مقولہ:’’ان ھذاالعلم دین فانظرواعمن تأخذون دینکم‘‘ یعنی دین کی باتوں کو سننے اور سیکھنے کے لیے ضروری ہے ہیکہ خوب غور کرلو کہ کیسے لوگوں سے علم حاصل کررہے ہو اور دین سیکھ رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔(آمین)
زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی۔۔۔نائب مفتی:دارالافتاء دارالعلوم،دیوبند۔۔۔۲۰؍۳؍۱۴۳۲ھ= ۲۴؍۲؍۲۰۱۱ء


لوگ اپنے انبیاء اور گزشتہ برگزیدہ شخصیات کے ناموں پر اپنا نام رکھا کرتے تھے۔ اس سے پتہ چلا کہ نہ یہ کوئی نیا اعتراض ہے اور نہ ہی اپنی جانب سے جواب گھڑنے کی کوئی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تفسیر سے متعلق احادیث سے بے خبری کس قدر ہے کہ ذخیرۂ احادیث و تفسیر سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کے بجائے من گھڑت تاویل کررہے ہیں۔
(ھ)۔۔۔ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب آیتِ کریمہ:والارض بعد ذلک دحاھا. [النازعات: ۳۰]کے متعلق کہتے ہیں:
’’یہاں انڈے کے لئے استعمال کیا جانے والا لفظ’’دحٰھا‘‘ ہے، جس کا مطلب شتر مرغ کا انڈا، شتر مرغ کا انڈا زمین کی شکل سے مماثلت رکھتا ہے؛ لہٰذا قرآنِ کریم مکمل درستگی سے زمین کی شکل کی وضاحت کرتا ہے، حالاں کہ اس وقت جب قرآن اتارا گیا یہ خیال کیا جاتا تھا کہ زمین چپٹی(Flat) ہے‘‘۔ [خطبات ذاکر نائیک، قرآن اور جدید سائنس:۷۴۔۷۳]
یہاں پر ڈاکٹرصاحب سائنسی نظریہ سے مرعوب ہونے، نیز قرآنِ کریم کے موضوع(جو کہ توحید و رسالت ہے اور باقی طبیعیات وغیرہ کی باتیں ضمناً ہیں) کو نہ سمجھنے کی وجہ سے، زمین کی ہیئت کی تحقیق کرنے میں، آیت کریمہ سے غلط استدلال کرتے ہوئے آیت کی من مانی تشریح کررہے ہیں؛ اس لیے کہ ’دحو‘ کا لفظ و مادہ عربی زبان میں پھیلانے اور پھلاؤ کامفہوم رکھتا ہے، اسی کے مطابق ’دحٰھا‘ کی تفسیر و ترجمہ زمین کو پھیلانے سے، اور اس میں موجود اشیاء کے پیدا کرنے سے کیا گیا ہے(ملا حظہ ہو تفسیر ابن کثیر) یہ لفظ و مادہ انڈے کے معنی میں نہیں آتا۔
(۳)۔۔۔احادیث نبویہ سے ناواقفیت:
ذخیرہ احادیث سے ناواقفیت کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے بہت سی جگہوں پر صحیح احادیث کے خلاف مسائل بتلائے، نیز کتنے ہی مقامات پر کسی مسئلے پر متعدد احادیث ہونے کے باوجود یہ کہہ ڈالا کہ اس باب میں کوئی دلیل نہیں، ذیل میں ڈاکٹر صاحب کی احادیث سے جہالت یا دانستہ چشم پوشی کی چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:
(الف)۔۔۔ عورتوں کے لیے حالتِ حیض میں قرآن پڑھنے کا جواز
ایک پروگرام ’’گفتگو‘‘ میں عورت کے خاص ایام کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں:
’’قرآن و حدیث میں نماز کی رخصت ہے؛ لیکن کسی حدیث میں نہیں کہ وہ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔‘‘
حالاں کہ ترمذی شریف میں صریح حدیث ہے:’’لاتقرأ الحائض ولاالجنب شیأ من القرآن‘‘ یعنی جنبی اور حائضہ قرآن نہ پڑھیں۔۔۔۔آپ غور کیجیے کہ ڈاکٹر صاحب نے صحیح و صریح حدیث کے موجود ہونے کے باوجود دعویٰ ہمہ دانی کرتے ہوئے اس کا انکار کردیا۔
(ب)۔۔۔ خون سے وضو ٹوٹنے پر، احناف کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
’’بعض علمائے کرام خصوصاً فقہِ حنفی سے متعلق علمائے کرام کے خیال میں خون بہنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے، نماز کے دوران خون بہہ جانے کی صورت میں کس کو کیا کرناچاہیے، اس سوال کے جواب میں ان کا فتویٰ (احناف کا فتویٰ) بہت طویل ہے تاہم ان کے اس نقطۂ نظر کی تائید میں بہ ظاہرکوئی ثبوت نہیں ہے‘‘۔ [حقیقت ذاکر نائیک:۲۱۴،م:مکتبہ دیوبند]
یہاں پر ڈاکٹر صاحب نے فقہِ حنفی سے متعلق علماء پر الزام لگا ڈالا کہ وہ بلا ثبوت وضو ٹوٹنے کی بات کہتے ہیں، حالاں کہ خون سے وضو ٹوٹنے کے سلسلے میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں،نیز صحابۂ کرام کا تعامل بھی اس پر رہاہے،ذیل میں چندروایتیں ملاحظہ فرمائیں:
(۱)۔۔۔اخرج البخاری عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت: جائت فاطمۃ بنت ابی حبیش الی النبیﷺ فقالت: یارسول اللہ انی امرأۃ استحاض فلا اطہر، افادع الصلاۃ؟ قال:لا، انما ذلک عرق ولیست بالحیضۃ، فاذا اقبلت الحیضۃ فدعی الصلاۃ واذا ادبرت فاغسلی عنک الدم قال ہشام: قال ابی ثم توضئی لکل صلاۃ حتی یجئ ذلک الوقت۔
(۲)۔۔۔اذارعف احدکم فی صلاتہ فلینصرف فلیغسل عنہ الدم ثم لیعد وضوء ہ ویستقبل صلاتہ [اخرجہ الدارقطنی] یعنی دورانِ نماز اگر کسی کی نکسیر پھوٹ جائے تواسے چاہیے کہ خون کو دھولے اور وضودہرائے۔
(۳)۔۔۔عن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ :الوضوء من کل دم سائل۔ اخرجہ ابن عدی فی الکامل. [نصب الرایۃ للامام زیلعی:۱\۳۷] یعنی خون بہنے سے وضو لازم ہوجاتا ہے۔
یہ اور ان کے علاوہ بہت سی روایات کے باوجود، ڈاکٹر صاحب نے، اپنی ناواقفیت کا اظہار نہ کرکے مجتہدانہ دعویٰ کردیا کہ بہ ظاہر خون سے وضو ٹوٹنے پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔
(ج) ۔۔۔مردو عورت کی نماز میں فرق کرنا جائز نہیں۔
ایک دوسری جگہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
’’کہیں بھی ایک صحیح و مستند حدیث نہیں ملتی جس میں عورت کے لیے مرد سے علیحدہ طریقے کے مطابق نماز اداکرنے کا حکم ہو، اس کے بجائے صحیح بخاری کی روایت ہے، حضرت ام درداء روایت کرتی ہیں کہ التحیات میں عورتو ں کو مردوں کی طرح بیٹھنے کا حکم ہے‘‘۔


[اسلام پر چالیس اعتراضات:۱۳۰، ازڈاکٹر ذاکر نائک، م:اریب پبلیکیشنر، دہلی]
ڈاکٹر صاحب نے یہاں سائنسی تحقیق سے مرعوب ہو کر، اس سے پیدا ہونے والے سرسری اعتراض سے بچنے کے لیے ، قرآن کی دوسری آیت اور صحابہ و تابعین سے منقول تفسیر کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، ایک معروف معنی کا انکار کردیا اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید اور ان کی تغلیط کرڈالی۔ ڈاکٹر صاحب نے جو معنی بیان کیا ہے’ما‘ موصولہ کے عموم میں آسکتا ہے اور بہت سے مفسرین نے ایک احتمال کے طور پر، پہلے معنی کے ضمن میں اس کا بھی ذکر کیا ہے؛ لیکن دوسرے معنی کا انکار کردینا قطعاً صحیح نہیں؛ بلکہ ڈاکٹر صاحب کی قلت تدبر او رتفسیر میں صحابہ اور تابعین کے اقوال سے روگردانی کی واضح دلیل ہے؛ اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب نے جس معنی کی نفی کی ہے، اسی کی طرف سورۂ رعد کی آیت:اللہ یعلم ماتحمل کل انثی وما تغیض الارحام وما تزداد. [الرعد:۸] ’’یعنی اللہ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہے کہ جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے اور جو کچھ رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے‘‘ اشارہ کررہی ہے، نیز مشہور تابعی اور تفسیر کے امام قتادہؒ سے بھی یہی معنی مروی ہے، چنانچہ حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں:’’فلا تعلم مافی الارحام اذکر ام انثی.‘‘ الخ یعنی رحم مادر میں نر ہے یا مادہ اس کا قطعی علم سوائے خدا کے کسی ااور کو نہیں، اسی طرح ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر[۶/۳۵۵] میں، علامہ نسفیؒ نے تفسیر مدارک[۳/۱۱۶] میں اور امام شوکانیؒ نے فتح القدیر[۵/۴۹۸]میں مذکورہ آیت کا یہی معنی بیان فرمایا ؛لیکن ڈاکٹر صاحب ان اکابر مفسرین کے بیان کردہ معنی کو غلط ٹھہراکر ، اپنے بیان کردہ معنی کو قطعی سمجھ کر اسی پر مصر ہیں۔
صحیح جواب:آیتِ کریمہ کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لیے علمِ غیب کو ثابت کرناہے اور علم غیب در حقیقت اس یقینی علم کو کہا جاتا ہے جو کسی سبب ظاہری کے بغیر براہِ راست ، کسی آلے کے بغیر حاصل ہو، طبی آلات سے ڈاکٹروں کو حاصل ہونے والا علم نہ یقینی ہوتا ہے اور نہ ہی بلاواسطہ؛ بلکہ وہ محض ظنی ہے اور آلات کے واسطے سے حاصل ہوتا ہے؛ لہٰذا الٹرا سونو گرافی کے ذریعے حاصل ہونے والے اس ظنی علم سے قرآنی آیت پر کوئی اعتراض وارد نہ ہوگا۔
(ج) ۔۔۔ڈاکٹر صاحب آیتِ کریمہ:یاایھا النبی اذاجآئک المؤمنٰت یبایعنک علیٰ ان لا یشرکن باللہ شیئاً. [الممتحنہ:۱۲]کی تفسیر میں کہتے ہیں:
’’یہاں لفظ’’بیعت‘‘ استعمال ہوا ہے اور بیعت کے لفظ میں ہمارے آج کل کے الیکشن کا مفہوم بھی شامل ہے؛ کیوں کہ حضورﷺ اللہ کے رسول بھی تھے اور سربراہ مملکت بھی تھے اور بیعت سے مراد انہیں سربراہ حکومت تسلیم کرنا تھا، اسلام نے اسی دور میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق بھی تفویض کردیا تھا۔‘‘
[اسلام میں خواتین کے حقوق:۱۵۰ از ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب]
یہاں بھی ڈاکٹر صاحب آیت کی غلط تشریح کرتے ہوئے، اس سے عورت کے ووٹ دینے کا حق ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ عورتوں کا حضورﷺ کی خدمت میں آکر بیعت کرنا، موجودہ دور کے جمہوریت کے طرزِ انتخاب کی ہی قدیم شکل ہے، جب کہ جمہوریت کی حقیقت سے جو لوگ واقف ہیں وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ تشریح بالکل واقع کے خلاف ہے اور تفسیر قرآنی میں اپنی عقل کا بیجا استعمال ہے؛ اس لیے کہ موجودہ جمہوریت کے مطابق سب کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ سربراہ چننے کے لیے اپنی رائے دیں اگر کسی شخص پر کثرت و اتفاقِ رائے نہ ہو تو وہ سربراہ نہ بن سکے گا، اگر حضورﷺ کا بیعت کرنا درحقیقت ووٹ لینا تھا، تو کیا ان صحابیات کو اختیار تھا کہ حضورﷺ کی سربراہی تسلیم کرنے سے انکار کردیں؟
(د)۔۔۔ سورۂ مریم کی آیت: یااخت ہارون ماکان ابوک امرا سوءٍ وما کانت امک بغیا. [مریم:۲۸]پرناسمجھی سے کیا جانے والا معروف اشکال -حضرت مریم علیہا السلام، حضرت ہارون کی بہن نہیں تھیں او ردونوں کے زمانے میں تقریباً ایک ہزار سال کا فاصلہ ہے-کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’عیسائی مشنری یہ کہتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کو یسوع مسیح کی والدہ(Marry) مریم اور ہارون کی بہن مریم میں فرق کا پتہ نہیں تھا، حالاں کہ عربی میں ’’اخت‘‘ کے معنی اولاد بھی ہیں؛ اس لیے لوگوں نے مریم سے کہا کہ اے ہارون کی اولاد اور اصل اس سے مراد حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد ہی ہے۔‘‘
[اسلام پر چالیس اعتراضات، از:ڈاکٹر ذاکرنائیک]
ڈاکٹر صاحب کی، احادیث اور لغت سے نادانی اور جہالت پر مبنی اس تحقیق پر تبصرے کے طور پر مسلم شریف کی حدیث ہی کافی ہے، صحیح مسلم میں ہے:عن المغیرۃ بن شعبۃ قال: لما قدمت نجران سألونی، فقالوا انکم تقرأون یا اخت ہارون و موسی قبل عیسی بکذا وکذا، فلما قدمت علیٰ رسول ﷺ سألتہ عن ذلک فقال: انھم کان یسمون بانبیاءھم والصالحین قبلھم۔[مسلم:۶/۱۷۱،دارالجیل بیروت، رقم:۵۷۲۱] یعنی نبی اکرمﷺ نے اس آیت کی وضاحت آج سے چودہ سو سال پہلے ہی کردی تھی، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم، حضرت موسی کے بھائی حضرت ہارون کی بہن نہ تھیں؛ بلکہ حضرت عیسیٰ کی والدہ کے بھائی کا نام بھی ہارون تھا، اور یہ

Показано 20 последних публикаций.

789

подписчиков
Статистика канала