امام الوادعی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصر ترجمہ (۲/۴)
(پچھلے پوسٹ سے جاری ہے)
•آپ رحمہ اللّٰه تعالٰی کا طلبِ علم:
پس اللّٰه تعالیٰ اس شاندار امام کو لایا اور ان میں علم کی محبت پیدا کی یہ اللّٰه تعالیٰ کی رحمت اور اس کے وعدے کی تکمیل سے ہے ’’بے شک ہم ہی نے ذکر نازل کیا اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں". (الحجر:9)
اور رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر سو سال کے شروع یا آخر میں ایک ایسے شخص کو بھیجتا ہے جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے اور شیخ رحمۃ اللہ علیہ ہمیں اپنے علم کی طلب کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہیں جیسا کہ ان کے ترجمہ میں موجود ہے جسے انہوں نے بذات خود لکھا ہے شیخ نے فرمایا: میں مکتب میں پڑھا یہاں تک کہ میں نے مکتب کا نصاب ختم کر لیا پھر میری عمر کا کچھ حصہ جتنا اللّٰہ تعالٰی کو منظور تھا ضائع ہو گیا جس میں میں علم حاصل نہ کرسکا اور میں نے مسجد الہادی میں علم حاصل کیا لیکن وہاں علم حاصل کرنے میں میری معاونت نہیں کی گئی پھر میں نے حرمین شریفین اور نجد کی سرزمین کا سفر کیا پس میں واعظین/ مبلغین کو سنتا تھا اور مجھے ان کے وعظ اچھے لگتے تھے تو میں نے کچھ مبلغین سے مشورہ کیا کہ کون سی کتابیں مفید ہیں تاکہ میں انہیں خرید سکوں تو انہوں نے صحیح البخاری، بلوغ المرام، ریاض الصالحین اور فتح المجید شرح کتاب التوحید کی طرف میری رہنمائی کی اور انہوں نے مجھے توحید کے نصاب کے کچھ نسخے دیے (اس وقت) میں مکہ میں الحجون کی ایک عمارت میں پہرے دار تھا پس میں نے اپنے آپ کو ان کتابوں میں مشغول کر دیا اور یہ کتب ذہن سے معلق ہوگئیں کیونکہ ہمارے ملک میں کام اس کے خلاف تھا جو ان (کتب) میں تھا، ایک مدت کے بعد میں اپنے ملک واپس آیا اور میں نے جو کچھ دیکھا وہ ان کتب میں موجود چیزوں کے خلاف تھا۔
پھر شیخ رحمہ اللّٰه نے اپنے بارے میں بتایا کہ جامع الہادی میں دوبارہ تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کر کے مجھے تکلیف پہنچائی گئی اور انہوں نے اس پر عقیدہ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے پر توجہ مرکوز کی تاکہ اس کے ذہن میں جو صحیح عقیدہ معلق ہوا ہے اسے بدل سکیں۔
لیکن ایسا نہیں تھا اور جیسا کہ انہوں اپنے لیے بطور استشہاد کہا:
"میرے پاس اسکی محبت آئی پہلے اس کے کہ میں اس کی محبت کو پہچانتا
پس اس نے دل کو خالی پایا اور وہ اس پر متمکن ہوگئی"
یعنی صحیح عقیدہ نے ان کے دل پر قبضہ کر لیا تھا، اس لیے انہوں نے گرامر میں سخت محنت کی کہ مقرر کردہ کتابیں شیعی معتزلی تھیں جیسا کہ انہوں نے اپنے بارے بتایا اور اسی طرح وہ اپنے بارے میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب انقلاب برپا ہوا تو انہوں نے نجران کا سفر کیا اور ابو الحسین مجد الدین المؤیدی کے پاس رہے (جو یمن کے گمراہ ائمہ جو شیعہ مذہب کے ماننے اور اس کی طرف دعوت دینے والوں میں سے ایک ہے بلکہ اس نے "مطالع الانوار فی ترجمہ علماء الامصار" میں چالیس سے زیادہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کیا اور یہ چیز اس کے رفض پر دلالت کرتی ہے) شیخ رحمہ اللّٰه نے اس سے گرامر میں استفادہ کیا۔
یہ شیخ رحمہ اللّٰه کی یمن میں حاصل کی گئی علمی کاوشوں کا مختصر خلاصہ ہے پھر وہ سعودی عرب چلے گئے جہاں انہوں نے ڈیڑھ ماہ کے لیے ریاض میں حفظ قرآن کے اسکول میں داخلہ لیا پھر وہ مکہ روانہ ہو گئے شیخ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر کوئی کام ملتا تو میں کر لیتا تھا اور رات کو شیخ یحییٰ عثمان الباکستانی کے تفسیر ابن کثیر، بخاری اور مسلم پر درس میں حاضر ہوتا تھا۔
اور میں کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا اور میں نے یمن کے علماء میں سے دو نامور شیوخ سے ملاقات کی جن میں سے ایک القاضي یحییٰ الاشول جو کہ عمر رسیدہ تھے میں ان سے سبل السلام للصنعانی پڑھتا تھا اور وہ مجھے وہی کچھ پڑھاتے تھے جس کا میں طالب تھا اسی طرح شیخ عبد الرزاق الشاحذی المحویتی بھی مجھے وہی کچھ پڑھاتے جس کا میں طالب تھا۔
پھر شیخ رحمہ اللّٰه نے جب معہد الحرم کا آغاز ہوا اس میں داخلہ لیا اور سب سے نمایاں شیوخ جن سے شیخ رحمہ اللّٰه نے پڑھا ان میں شیخ عبدالعزیز السبیل، شیخ عبداللہ بن حمید اور شیخ محمد السبیل شامل ہیں یہ معہد میں تھے اور شیخ رحمہ اللّٰه نے حرم میں شیخ عبد العزیز بن راشد النجدی اور شیخ محمد بن عبداللہ الصومالی سے
پڑھا۔
(نیچے جاری ہے ان شاء اللہ)
(پچھلے پوسٹ سے جاری ہے)
•آپ رحمہ اللّٰه تعالٰی کا طلبِ علم:
پس اللّٰه تعالیٰ اس شاندار امام کو لایا اور ان میں علم کی محبت پیدا کی یہ اللّٰه تعالیٰ کی رحمت اور اس کے وعدے کی تکمیل سے ہے ’’بے شک ہم ہی نے ذکر نازل کیا اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں". (الحجر:9)
اور رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر سو سال کے شروع یا آخر میں ایک ایسے شخص کو بھیجتا ہے جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے اور شیخ رحمۃ اللہ علیہ ہمیں اپنے علم کی طلب کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہیں جیسا کہ ان کے ترجمہ میں موجود ہے جسے انہوں نے بذات خود لکھا ہے شیخ نے فرمایا: میں مکتب میں پڑھا یہاں تک کہ میں نے مکتب کا نصاب ختم کر لیا پھر میری عمر کا کچھ حصہ جتنا اللّٰہ تعالٰی کو منظور تھا ضائع ہو گیا جس میں میں علم حاصل نہ کرسکا اور میں نے مسجد الہادی میں علم حاصل کیا لیکن وہاں علم حاصل کرنے میں میری معاونت نہیں کی گئی پھر میں نے حرمین شریفین اور نجد کی سرزمین کا سفر کیا پس میں واعظین/ مبلغین کو سنتا تھا اور مجھے ان کے وعظ اچھے لگتے تھے تو میں نے کچھ مبلغین سے مشورہ کیا کہ کون سی کتابیں مفید ہیں تاکہ میں انہیں خرید سکوں تو انہوں نے صحیح البخاری، بلوغ المرام، ریاض الصالحین اور فتح المجید شرح کتاب التوحید کی طرف میری رہنمائی کی اور انہوں نے مجھے توحید کے نصاب کے کچھ نسخے دیے (اس وقت) میں مکہ میں الحجون کی ایک عمارت میں پہرے دار تھا پس میں نے اپنے آپ کو ان کتابوں میں مشغول کر دیا اور یہ کتب ذہن سے معلق ہوگئیں کیونکہ ہمارے ملک میں کام اس کے خلاف تھا جو ان (کتب) میں تھا، ایک مدت کے بعد میں اپنے ملک واپس آیا اور میں نے جو کچھ دیکھا وہ ان کتب میں موجود چیزوں کے خلاف تھا۔
پھر شیخ رحمہ اللّٰه نے اپنے بارے میں بتایا کہ جامع الہادی میں دوبارہ تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کر کے مجھے تکلیف پہنچائی گئی اور انہوں نے اس پر عقیدہ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے پر توجہ مرکوز کی تاکہ اس کے ذہن میں جو صحیح عقیدہ معلق ہوا ہے اسے بدل سکیں۔
لیکن ایسا نہیں تھا اور جیسا کہ انہوں اپنے لیے بطور استشہاد کہا:
"میرے پاس اسکی محبت آئی پہلے اس کے کہ میں اس کی محبت کو پہچانتا
پس اس نے دل کو خالی پایا اور وہ اس پر متمکن ہوگئی"
یعنی صحیح عقیدہ نے ان کے دل پر قبضہ کر لیا تھا، اس لیے انہوں نے گرامر میں سخت محنت کی کہ مقرر کردہ کتابیں شیعی معتزلی تھیں جیسا کہ انہوں نے اپنے بارے بتایا اور اسی طرح وہ اپنے بارے میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب انقلاب برپا ہوا تو انہوں نے نجران کا سفر کیا اور ابو الحسین مجد الدین المؤیدی کے پاس رہے (جو یمن کے گمراہ ائمہ جو شیعہ مذہب کے ماننے اور اس کی طرف دعوت دینے والوں میں سے ایک ہے بلکہ اس نے "مطالع الانوار فی ترجمہ علماء الامصار" میں چالیس سے زیادہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کیا اور یہ چیز اس کے رفض پر دلالت کرتی ہے) شیخ رحمہ اللّٰه نے اس سے گرامر میں استفادہ کیا۔
یہ شیخ رحمہ اللّٰه کی یمن میں حاصل کی گئی علمی کاوشوں کا مختصر خلاصہ ہے پھر وہ سعودی عرب چلے گئے جہاں انہوں نے ڈیڑھ ماہ کے لیے ریاض میں حفظ قرآن کے اسکول میں داخلہ لیا پھر وہ مکہ روانہ ہو گئے شیخ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر کوئی کام ملتا تو میں کر لیتا تھا اور رات کو شیخ یحییٰ عثمان الباکستانی کے تفسیر ابن کثیر، بخاری اور مسلم پر درس میں حاضر ہوتا تھا۔
اور میں کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا اور میں نے یمن کے علماء میں سے دو نامور شیوخ سے ملاقات کی جن میں سے ایک القاضي یحییٰ الاشول جو کہ عمر رسیدہ تھے میں ان سے سبل السلام للصنعانی پڑھتا تھا اور وہ مجھے وہی کچھ پڑھاتے تھے جس کا میں طالب تھا اسی طرح شیخ عبد الرزاق الشاحذی المحویتی بھی مجھے وہی کچھ پڑھاتے جس کا میں طالب تھا۔
پھر شیخ رحمہ اللّٰه نے جب معہد الحرم کا آغاز ہوا اس میں داخلہ لیا اور سب سے نمایاں شیوخ جن سے شیخ رحمہ اللّٰه نے پڑھا ان میں شیخ عبدالعزیز السبیل، شیخ عبداللہ بن حمید اور شیخ محمد السبیل شامل ہیں یہ معہد میں تھے اور شیخ رحمہ اللّٰه نے حرم میں شیخ عبد العزیز بن راشد النجدی اور شیخ محمد بن عبداللہ الصومالی سے
پڑھا۔
(نیچے جاری ہے ان شاء اللہ)