امام الوادعی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصر ترجمہ (۴/۴)
(پچھلے پوسٹ سے جاری ہے)•
جامعہ سے فراغت کے بعد کا مرحلہجامعہ سے فراغت کے بعد شیخ رحمۃ اللہ علیہ کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سب سے بڑی پریشانی ان کا یمن کے "صعدہ" نامی شہر کی طرف کتابوں سمیت واپس جانا تھا۔ یہ وہ کتابیں تھیں جنہیں شیعہ
مسلک کے لوگ دین خراب کرنے والی وہابی کتابیں سمجھتے ہیں۔
شیخ رحمۃ اللہ علیہ اپنے علاقے "دماج" پہنچے اور انہوں نے بچوں کو قرآن کی تعلیم دینا شروع کی۔
شیخ خود فرماتے ہیں: "پھر ساری دنیا ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گئی گویا کہ میں ملک، دین اور حکومت کو تباہ کرنے آیا ہوں۔ اس وقت میں نہ کسی مسؤول کو جانتا تھا اور نہ ہی کسی قبیلے کے سردار (شیخ القبیلہ) کو۔ پس میں 'حسبنا اللہ ونعم الوکیل' کہا کرتا تھا (معنی: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے) اور زیادہ تنگی محسوس کرنے پر میں دعوت کے لیے اور بھائیوں سے ملنے کے لیے 'صنعاء' یا 'حاشد' یا 'ذمار' یا اسی طرح 'تعز'، 'حدیدہ' یا 'اب' چلا جایا کرتا تھا”۔ اھ۔
یہ تمام باتیں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی آزمائشوں میں سے تھیں جن کا سامنا آپ کو کرنا پڑا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔"
اللہ تعالیٰ نے فرمان (کا ترجمہ): (الم۔ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انھیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟۔ اُن سے پہلے لوگوں کو بھی ہم نے خوب جانچا یقیناً اللہ تعالیٰ انھیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انھیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں۔ )
ام عبد اللہ الوادعیہ حفظہا اللہ اپنے والد کے بارے میں کہتی ہیں:
"کوئی بھی انہیں بھلائی، حصولِ علم اور استقامت میں مدد نہیں کرتا تھا بلکہ یہ بھی کافی نہیں تھا؛ ان کے بڑوں نے ان پر زیادتی کرکے انہیں نقصان پہنچایا اور ان کے خاندان و عوام الناس کو ان کے خلاف ورغلایا، یہاں تک کہ وہ ان کے قتل کا ارادہ کر چکے تھے۔"
نیز انہوں نے اپنی قوم کے حوالے سے ایسی مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کیا جو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، خاص طور پر ہاشمی شیعوں سے۔ ان میں سے بعض لوگ قبائل کے سردار تھے، جو ذاتی مفادات کے لیے اپنے عہدے اور دنیاوی مرتبے کو بچانے کے لیے ان کے خلاف تھے، کیونکہ شیخ کے آنے سے پہلے وہ عوام کے ہاں معزز تھے اور ان کا مال ناحق طریقے سے کھایا کرتے تھے۔ بلا شبہ وہ بہت بڑی آزمائشوں سے گزرے تھے کیونکہ وہ اکیلے جاہلوں اور خواہش پرستوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔"
الشیخ المبارک الناصح الأمین، یحییٰ بن علی الحجوری حفظه اللہ نے اپنی کتاب: (الطبقات ۲۴) میں فرمایا ہے:
"یقینی طور پر ہم جانتے ہیں کہ ہمارے شیخ علامہ الوادعی رحمۃ اللہ علیہ تقریباً پچیس سال پہلے سعودی عرب سے یمن لوٹ کر آئے تھے، جب ملک "تشیع"، "تصوف"، اور "تحزب" (جماعت سازی)، غیر اللہ سے دعا، قبروں کی مٹیوں سے تبرک، اور سراسر جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ پس اکثریت نے ان کی دعوت کو نہیں مانا، بس ان کی جگہ کے تھوڑے لوگوں نے ہی ان کا ساتھ دیا۔ انہوں نے صبر کیا اور دین پر جمے رہے، لوگوں کو دین سکھانے میں محنت کی، جو نفع بخش علم اور نیک عمل اللہ نے انہیں دیا تھا اس پر ثابت رہے (فیما نحسبہ واللہ حسیبہ)”
پھر شیخ نے اپنے بارے میں بتایا: "کچھ دن بعد ایک بھلے شخص نے مدینہ سے میری لائبریری کی کتابیں "صعدہ" کو بھیجیں اور مدیر اعلام حملی، اہل سنت سے نفرت کرنے والا تھا۔ تو جب ہمارے لوگوں نے اس سے کتابوں کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا: ظہر کے وقت دوں گا ان شاء اللہ۔ ظہر سے پہلے ہی شیعہ لوگوں نے مسوولین سے ان کتابوں پر روک لگانے کی اپیل کی کیونکہ یہ وہابیوں کی کتابیں ہیں۔ پھر اس کے لیے جو مجھے جرمانے، پریشانی اور ظلم و ستم سہنا پڑا، اس کے بارے میں مت پوچھو!"
طویل پریشانی سہنے کے بعد، صعدہ کے لوگوں نے صدر علی عبد اللہ صالح کو اس بارے میں خط لکھا اور انہوں نے اس معاملے کو قاضی علی السمان کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ کتابیں دیں گے لیکن فرمایا کہ صعدہ کے لوگ متشدد ہیں، وہ صنعاء کے علماء کو کافر کہتے ہیں۔ چنانچہ ساری کتابیں صنعاء بھیج دی گئیں۔ پھر مکتبہ توجیہ و ارشاد کے بعض لوگوں نے شیخ کو ان کی کتابیں لوٹا دیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اور انہیں مہدیین کے درجے تک پہنچائے۔ اس کے بعد بھی شیخ کو مصیبتیں آئیں، مال سے متعلق انہیں قتل کرنے کی بھی کوشش کی گئی اور جس چھوٹی سی مسجد میں پڑھانا شروع کیا تھا، اسے بم سے اڑانے کی بھی کوشش کی گئی لیکن اللہ نہیں مانتا مگر یہ کہ اپنے نور کو پورا کرے۔ بعض شعراء نے شیخ کی دعوت پر شعر کہا:
"يمضي ابن هادي شاهر ًا صماصمه=صمصام حق للعدو يمزق"
ابن ہادی اپنی تلوار اٹھائے آگے بڑھتا چلا۔۔۔ حق کی تلوار دشمنوں کو تکڑے تکڑے کرنے والی
(البیان الحسن فی ترجمۃ الامام الوادعی وما احیاہ من السنن)