توبہ کرنے کی درخواست کریں، پہر اگر اس نے توبہ کیا تو ٹھیک ہے، اگر توبہ نہیں کیا تو اس کو کافر سمجھ کر قتل کیا جاتا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص دین کو مزاق اڑائے کافر ہوجاتا ہے، یا جس چیز کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو حلال سمجھے کافر ہوجاتا ہے، مثلا کہے کہ زنا حلال ہے، یا کہے کہ شراب حلال ہے کافر ہوجاتا ہے، یا کہے کہ وضعی قوانین کے حکم کا اجرا کرنا حلال ہے، یا کہے کہ حکم بغیر ما انزل اللہ حلال ہے، یا کہے کہ وضعی قوانین اللہ کے حکم سے بہتر ہیں، یہ سارے مسائل اسلام کے دائرے سے باہر نکالنے والے ہیں، پس سارے اسلامی حکومتوں پر واجب ہے کہ اللہ کی شریعت کو نافذ کریں، لوگوں میں سے اگر کوئی شخص اسلام کے نواقض کا ارتکاب کرے ، حکومت اس سے توبہ کرنے کا مطالبہ کرے، اگر اس نے توبہ کرلیا تو ٹھیک ہے ورنہ اس کا قتل واجب ہوگا، پیغمبر -صلی اللہ علیہ وسلم- کے اس قول کے مطابق: ((اگر کوئی شخص اپنے دین کو تبدیل کرے اس کو قتل کر ڈالو)) أخرجه البخاري في صحيحه، صحیحین میں ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے کچھ امیروں کو مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا بشرطیکہ اگر وہ مرتد توبہ نہ کرلے، پھر فرمایا: (یہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے)، واجب ہے کہ (تنفیذ حکم) ولی الامر (حاکم یا امیر) کے ذریعہ سے ہوجائے شرعی عدالت کے ذریعہ سے ہوجائے تاکہ اللہ کے حکم کا تنفیذ کیا جائے علم و بصیرت کی روشنی سے.
المصدر:
http://binbaz.org.sa/fatawa/2057
_________
🌐 اهل سنت
https://telegram.me/ahlesonnat1
📝در نشر مطالب کوشا باشید.
المصدر:
http://binbaz.org.sa/fatawa/2057
_________
🌐 اهل سنت
https://telegram.me/ahlesonnat1
📝در نشر مطالب کوشا باشید.