سرکاری فوج میں بھرتی ہونا یا فوجی ملازمت کرنا حرام ہے!
شیخ العرب العجم حضرت سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ
جولائی ۱۹۲۱ء میں ’’خلافت کمیٹی ‘‘نے کراچی میں آل انڈیا کانفرنس منعقد کی ۔جس میں شیخ العرب العجم حضرت سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے جرأت ایمانی اورغیرتِ دینی کااعلان کرتی شہرۂ عالم تقریر کی۔اسی تقریر کے دوران میں آپ رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’حکومت برطانیہ کی فوج میں بھرتی ہونا یا کسی قسم کی فوجی ملازمت کرنا یا کسی کو فوجی خدمات کی ترغیب دینا بالکل حرام ہے‘‘۔اسی فتویٰ کی بنا پر انگریزوں نے آپ علیہ الرحمہ کو گرفتار کیا اورکراچی میں ’’مقدمہ کراچی‘‘ کے عنوان سے آپ کا عدالتی ٹرائل ہوا۔جس کے بعد آپ رحمہ اللہ کوانگریز جج نے دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ ماہنامہ نوائے افغان جہاد میں آپ رحمہ اللہ کی یہ تقریر اور ’مقدمہ کراچی ‘میں انگریز جج کے سامنے کمرۂ عدالت میں کی جانے والی تقریر قسط وارشائع کی جارہی ہے۔چونکہ تقسیم ہند کے بعدبرصغیر پاک وہند پرگورے کافروں کی جگہ ’’کالے انگریزوں‘‘کی حکمرانی کا دور دورہ ہوا اورانگریزی آئین و قانون سے ہی کشید کردہ قوانین اس سرزمین پرتاحال نافذ ہیں ،انگریزکی بنائی گئی ’’رائل انڈین آرمی ‘‘ہی اب بھی یہاں حاکم ومقتدرہے لہٰذاحضرتِ والا نور اللہ مرقدہ کے یہ الفاظ اور بیان کردہ مسلمہ دینی وشرعی تعبیرات آج بھی اُسی اہمیت کی حامل ہیں اوراس نظام کی کفریات کے خلاف برسرِعمل رہنے کی ویسی ہی پکار لگا رہی ہیں جیسے آج سے ایک صدی قبل حضرتِ مدنی رحمہ اللہ کے دور میں یہ آواز لگائی گئی تھی۔حضرت والا رحمہ اللہ نے جہاں جہاں انگریزوں اور برطانوی سامراج کو مخاطب کیا وہاں موجودہ نظام کے کَل پرزوں کومخاطب سمجھیں تو اُس وقت اورآج کے دور میں نظام مملکت وسلطنت میں بھی کچھ فرق نظر نہیں آئے گا اوریہ مانے بغیر بھی چارہ نہیں رہے گا کہ اِن سے متعلق بیان کردہ شرعی احکامات بھی یکساں اور ایک سے ہی ہیں! [ادارہ]
میں اس مضمون کو مختصر طورپر عرض کرنے کے بعد ایک خاص مضمون کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں اور میں عنقریب اس بیان کو ختم کردوں گا،زیادہ طویل بیان نہیں کرنا چاہتا۔وہ یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ جیسے مشرکین جمع ہوکر اور ایک اتحادی اور اجتماعی قوت سے تمہارے ساتھ میں مقابلہ اور لڑائی کرتے ہیں اور جنگ کرتے ہیں،اسی طرح تم پر اے مسلمانو!فرض ہے کہ خواہ چین کے ہو،خواہ ہندوستان کے ہو، خواہ عرب کے ہو،عراق کے ہو،روم کے ہو،سب کے سب اجتماعی صورت سے ان کا مقابلہ کرو۔آج حالت یہ ہے کہ امریکہ کے عیسائی،انگلینڈکے عیسائی،فرانس کے عیسائی، اٹلی کے عیسائی اور دوسری جگہوں کے عیسائی مجتمع ہوئے اسلام پر حملہ کررہے ہیں۔
اس جنگ میں جو کچھ ہوا وہ آپ حضرات نے بہت اچھی طرح سے سنا۔پھر ایسی صورت میں کیا فرض ہوگا مسلمانانِ ہند کا اور دوسری جگہ کے مسلمانوں کا؟وہی فرض ہوگا جو قرآن ابھی بلند آواز سے کہہ رہا ہے کہ تم مجتمع ہوکر ان کے ساتھ مقابلہ اورلڑائی اور جنگ کرو اور اسلام کو فتح یاب کرنے کی ہر طرح سے صورت کی جائے۔اگر اس سے مسلمان غافل رہے تو بے شک انہوں نے ایک بہت بڑا انتقام اپنے لیے کمایا جو کہ آخرت میں ان کے لیے کسی طرح کی سرخروئی کا ذریعہ نہیں ہوسکے گا۔اس لیے یہ بات ضروری ہے کہ پورے طریقہ سے مقابلہ کیا جائے۔مگر اس کا مطلب یہ نہ خیال کیا جائے کہ ہر شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دی جاوے گی کیونکہ
لایکلف اللہ نفسا الاوسعھا
بلکہ یہ بات ضروری ہوگی کہ ہر شخص اپنی طاقت کے موافق کرے۔جیسا کہ ترکوں پر ضروری ہے وہ اپنی طاقت کے مواقف مقابلہ کریں،اسی طرح ہندوستان والوں پر ضروری ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق مقابلہ کریں۔اس لیے یہ صورت ابتدا ءًاختیار کی گئی کہ امن اور شائستگی کے ساتھ ہندوستان میں قانون کی حد میں رہ کرمقابلہ کیا جاوے اور اس کے لیے صورتیں پیدا کی جاویں۔
چنانچہ اب تک جو کچھ سعی کی گئی ہے اورکوشش کی گئی ہے وہ اس بات کی تھی کہ قانون کی حد میں رہ کر مقابلہ کیا جائے اور اس کی صورتیں تجویز کی گئیں جوکہ آپ حضرات نے مختلف جلسوں میں سن لی ہوں گی۔
مگر آج یہ صورت پیش آگئی ہے کہ خوف کیا جاتا ہے اورانگلینڈسے اعلان کیاجاتا ہے کہ وہ انگوراگورنمنٹ کو جو ایک اکیلی گورنمنٹ مسلمانوں کی باقی رہ گئی ہے اور اس کے ہاتھ میں کسی قدر قوت ہے،جس کو ایک مدت سے یونان ہر طرح سے پیس رہا ہے،جس میں یونانیوں کے مظالم اس درجہ کو اور اس حد تک پہنچ گئے ہیں جس کو وحشیوں کی قومیں بھی کسی طرح سے روا نہیں رکھ سکتی ہیں ،اس میں برطانیہ اور متحدہ فوجیں کسی قسم کے احتجاج کی آوازیں بلند نہیں کرتی ۔
مگر آج اس کے سوا بھی خوف کیا جاتا ہے کہ وہ انگورا گورنمنٹ کو اعلان جنگ دینا چاہتی ہیں۔پھر کیا اس صورت میں مسلمانوں کا فرض یہی ہوگا جیسا پہلےسے معاملہ کرتے چلے آئے ہیں اسی طرح معاملہ کرتے رہیں؟
******
نوائے افغان جہاد جمادی الاول۱۴۳۹ھ جنوری۲۰۱۸